عراقی کردستان میں آزادی ریفرنڈم میں ووٹ ڈالے گئے

ایک کرد خاتون آزادی ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ 25 ستمبر 2017

عراقی دارالحکومت بغداد اور پڑوسی ملکوں نے ریفرنڈم کے انعقاد پر اعتراضات کیے ہیں۔

عراقی کر د علاقے میں لوگوں نے پیر کے روز آزادی کے متعلق ریفرنڈم میں ووٹ ڈالے، جس کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ووٹروں نے ’ہاں‘ پر مہریں لگائی ہیں۔

عراقی دارالحکومت بغداد اور پڑوسی ملکوں نے ریفرنڈم کے انعقاد پر اعتراضات کیے ہیں۔

کر د خطے کے صدر مقام پر بہت سے لوگوں نے روایتی لباس پہن کر اور کرد جھنڈے اٹھا کر ووٹ ڈالے۔ ووٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ریفرنڈم میں ان کا ووٹ انہیں آزادی کے خواب کی تعبیر کی جانب لے جائے گا۔

ایک ووٹر محمد نے، جس نے اپنے کم عمر بیٹے کو کندھے پر بٹھایا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں کردستان کا جھنڈا تھا، اربیل کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ ڈالا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم اس دن کا یک سو سال سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ بہت خوبصورت دن ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا ہے کہ ریفرنڈم میں بڑے پیمانے پر ووٹ ڈالے گئے اور پولنگ پر امن رہی۔

دوسری جانب پولنگ ختم ہونے سے پہلے ہی بغداد نے اس علاقے میں جہاں اربیل کے ساتھ اس کا تنازع چل رہا ہے، اپنے فوجی دستے بھیج دیے تھے۔

عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ وہ عراق کی یکجہتی قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

کرد صدر مسعود بارزانی مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ آزادی کے لیے ووٹ دینا کرد عوام کی خواہش تھی اور یہ معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

انہوں نے اتوار کے روز کہا کہ آزادی ہمیں ہم ماضی کے سانحات کو دوہرانے سے محفوظ رکھے گی۔ بغداد کے ساتھ شراکت داری کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے اور اب ہم اس جانب نہیں جائیں گے۔

ریفرنڈم شروع ہونے سے پہلے عراقی وزیر اعظم عبادی نے کرد خطے کو حکم دیا کہ وہ اپنی سرحدی گذرگاہوں اور ہوائی اڈوں کا کنٹرول بغداد کے حوالے کر دیں ۔ انہوں نے دوسرے ملکوں پر بھی زور دیا کہ وہ کردوں سے تیل نہ خریدیں۔

ہمسایہ ملک ایران، شام اور ترکی نے، جہاں خاصی تعداد میں کرد آباد ہیں، عراقی کرد علاقے کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔

ایران اور ترک حکومتوں نے آزادی سے متعلق ریفرنڈم کی ٕمخالفت کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ان کے علاقوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو سکتی ہیں۔

شام کے سرکاری میڈیا نے اپنے وزیر خارجہ ولید معلم کے حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے ان کے ملک کے ریفرنڈم کو مسترد کر دیا ہے۔ اور یہ کہ ان شام عراق کو ایک اکائی کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔

ترکی نے، جو تین عشروں سے کردوں کے خلاف لڑ رہا ہے، کہا ہے کہ آزادی کے لیے ریفرنڈم غیر قانونی ہے ۔ دوسرے ملکوں کو کردوں کے غیر قانونی عمل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ ترک وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر ترکی کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو ان کا ملک بین الاقوامی قانون کے تحت ہر مکن اقدامات کرے گا۔