پاکستان میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کثرت رائے سے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت عدالت میں اپیل کرنے سے متعلق اجازت کے لیے قانون سازی کا بل منظور کر لیا ہے۔
اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے کمیٹی سے بل زبردستی پاس کروایا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون پہلے ہی موجود ہے تو پھر کلبھوشن کے لیے الگ قانون کیوں؟ دوسری جانب حکومت نے اپوزیشن کو تنقید کرنے کی بجائے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ پڑھنے کی تلقین کی ہے۔
حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف میں کلبھوشن جادیو کے لیے آرڈیننس کی مدت مکمل ہونے کے بعد "انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسلیشن آرڈیننس 2020" کو بل کی صورت میں پیش کیا۔
یہ آرڈیننس اپنی مقررہ مدت کے بعد بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جہاں سے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی میں بھجوایا گیا تھا۔
کلبھوشن کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو پاکستانیوں کو بھی نہیں حاصل نہیں: نوید قمر
بل پر بحث کے دوران اپوزیشن نے بل کی بھرپور مخالفت کی۔ پیپلزپارٹی کے رکن نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کو اپیل کا حق نہیں ہے۔ فوجی عدالت سے سزا ملنے کے بعد ان کے لیے ایپلیٹ کورٹ یعنی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے بعد ملٹری کورٹ آف اپیل ہے۔ اکثر اپیلیں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں آتی ہیں۔
نوید قمر نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے کلبھوشن کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو پاکستانیوں کو بھی دستیاب نہیں۔
اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کی عائلہ کامران نے کہا کہ ہم اسمبلی ممبران منتخب ہو کر اس لیے نہیں آئے کہ بھارتی جاسوس کو سہولت دینے کے لیے قانون سازی کریں۔
بھارت قانون سازی کے خلاف ہے: وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ بھارت عالمی عدالت انصاف میں گیا اور وہاں کہا گیا کہ پاکستان نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی۔
وزارت قانون و انصاف یہ قانون سازی کر رہی ہے ناکہ بھارت اسے بنیاد بنا کر یہ معاملہ سلامتی کونسل کے سامنے معاملہ نہ لے جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو 2016 میں گرفتار کیا گیا۔ بھارت نے اعتراض اٹھایا کہ ان کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔ سابقہ حکومت نے اپنی دانست کے مطابق کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی۔ ہماری حکومت کے دور میں عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ دیا کہ ویانا کنونشن کے مطابق قونصلر رسائی دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں ہم آرڈیننس لے کر آئے۔ عالمی عدالت نے سزا پر نظرثانی کے لیے طریقہ کار بنانے کی ہدایت بھی کی۔ بھارت چاہتا تھا کہ کلبھوشن کو رہا کروایا جائے۔ بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان قانون سازی نہ کرے اور معاملہ دوبارہ عالمی عدالت میں جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آرڈیننس پڑھے بغیر کہا جا رہا ہے کہ کلبھوشن کی سزا معاف کی گئی۔ کلبھوشن کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ آرڈیننس نہ لاتے تو پاکستان پر توہین عدالت کے جرم میں پابندیاں عائد ہو سکتی تھیں۔ آرڈیننس کے تحت کلبھوشن کی سزا کا جائزہ عدالت ہی لے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ کسی کو کلبھوشن کا وکیل نامزد کرے۔ اس بل کو کمیٹی سے پاس کر کے ایوان میں لایا جائے تاکہ قانون بن سکے۔
پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ ہم بھارتی جاسوس سے متعلق قانون لانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت کلبھوشن کو رعایت دینے جا رہی ہے جو غلط ہے۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آپ بتائیں کہ آپ کو کس چیز پر اعتراض ہے۔ ہم اپنی غلطی درست کرنے کو تیار ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کی عائلہ کامران نے کہا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کو مس گائیڈ کر رہے ہیں۔ آرڈیننس کو عوام کے سامنے لائیں۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ کیا عدالتیں صرف کلبھوشن کا ہی کیس نہیں سن سکتیں؟
کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دینے کا فیصلہ دفاعی اداروں کا تھا: محسن شاہنواز
مسلم لیگ(ن) کے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دینے کا فیصلہ دفاعی اداروں کا تھا ن لیگ کا نہیں۔ ان کیمرا اجلاس بلائیں تو بتا دوں گا کہ قونصلر رسائی نہ دینے کا فیصلہ کس کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیر میں بھارتی اقدامات پر عالمی عدالت انصاف کیوں نہیں گیا؟ جس پر وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ بہت جلد آپ کو سرپرائز ملے گا۔
بل پر اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود قائمہ کمیٹی نے کثرت رائے سے کلبھوشن جادیو کو پاکستانی عدالت میں نظرثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دینے سے متعلق بل منظور کر لیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت ہریش سالوے کو کلبھوشن کا وکیل نامزد کرنے کا خواہاںاس معاملے پر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت نے کلبھوشن جادیو کو سپر این آر او دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون پہلے ہی موجود ہے تو پھر کلبھوشن کے لیے الگ قانون کیوں بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جو دلائل دئیے ہیں وہ سب بھی قانون میں موجود ہیں۔
ہم نے عالمی عدالت انصاف میں اپنے کیس میں کہا تھا کہ ملڑی کورٹ کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں جیسے پشاور ہائی کورٹ نے ملٹری کورٹس سے سزائے موت پانے والے کئی ملزمان کی سزاؤں کو تبدیل کیا۔ اگر یہ قانون موجود ہے تو پھر ایک کلبھوشن جادیو کے نام سے قانون لانے کی کیا ضرورت تھی، وہ بھی ان حالات میں جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے آگ اور خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ کون سی قومی پالیسی اور قومی مفاد ہے جس کا یہ تقاضا ہے کہ مبینہ طور پر بھارتی جاسوس کے لیے قانون لایا جائے۔
قانون سازی سے بھارت کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے: مشیر داخلہ
مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کیس میں کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ اپوزیشن بار بار اس معاملے کو اٹھا کر ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ان کے بھارتی جاسوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ آج بھی اپوزیشن کلبھوشن جادیو کے حق میں باتیں کر رہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اپوزیشن نے بل کے حق میں ووٹ دیا لیکن عوام کے سامنے جھوٹ بول رہی ہے۔ ہم نے جو بل منظور کرایا ہے کہ اس کے بعد بھارت کے پاس عالمی عدالت انصاف کے پاس جانے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
کلبھوشن جادیو کون ہے؟؟
پاکستان حکام کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن جادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا۔
پاکستان کے مطابق بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کر لیا تھا کہ کہ انھیں را کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اس حوالے سے پاکستان فوج کے ترجمان نے ایک نیوز کانفرنس میں کلبھوشن جادیو کی ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں وہ ان تمام جرائم کا اعتراف کر رہا تھا۔
بعدازاں 10 اپریل 2017 کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن جادیو کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائے جانے کا اعلان کیا تھا۔
بھارت عالمی عدالت انصاف میں
10 مئی 2017 کو بھارت نے کلبھوشن جادیو کو سزائے موت سنانے کا معاملہ عالمی عدالت انصاف آئی سی جے میں لے جانے کا فیصلہ کیا اور عالمی عدالت سے اس کیس کو ہنگامی نوعیت کا قرار دے کر اس پر فوری سماعت کے لیے درخواست کی۔
بعدِ ازاں 18 مئی کو آئی سی جے نے بھارت کی اپیل پر عبوری فیصلہ سنایا اور حکم امتناع جاری کرتے ہوئے پاکستان کو ہدایت کی کہ اس کیس میں فیصلہ آنے تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد سے روک دیا جائے۔
گزشتہ سال 17 جولائی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے کلبھوشن جادیو کو ویانا کنونشن کے مطابق قونصلر رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے کلبھوشن کے دوسرے پاسپورٹ کو بھی اصلی قرار دیا تھا۔
اس رسائی سے قبل کلبھوشن جادیو کے اہل خانہ کو 25 دسمبر 2018 کو پاکستان میں ملاقات بھی کرائی گئی تھی۔ لیکن اس وقت بھی کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کو شیشے کی دیوار میں ملوایا گیا تھا اور تمام ملاقات کی فوٹیج بنائی گئی تھی۔ بھارت نے ان اقدامات پر شدید اجتجاج بھی کیا تھا۔
کلبھوشن جادیو کو اب تک دو مرتبہ قونصلر رسائی دی جا چکی ہے لیکن اب تک کلبھوشن جادیو یا بھارت نے پاکستانی عدالت میں اپیل کرنے سے انکار کیا ہے۔ بھارت نے اس سلسلہ میں بھارتی وکیل اور بعد میں برطانوی نژاد بھارتی وکیل کو یہ کیس لڑنے کے لیے بھجوانے کا کہا، لیکن پاکستانی قوانین کے مطابق کوئی غیر ملکی وکیل پاکستانی عدالتوں میں پیش نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے پاکستان نے اب تک انکار کیا ہوا ہے۔
بھارت کلبھوشن جادیو پر عائد تمام الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ کلبھوشن صرف بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہیے جس پر عائد تمام الزامات غلط ہیں۔،