روسی لڑاکا طیارہ گرانے پر ترکی نےمعذرت کر لی ہے، روس کا دعویٰ

فائل

ردِ عمل کے طور پر، گذشتہ نومبر میں روس نے ترکی کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردی تھیں، جن میں براستہ ترکی روس سے یورپ جانے والی گیس پائپ لائین کی تعمیر منجمد کردی گئی تھی؛ اور روسی سیاحوں کو ترک صحت افزا مقامات جانے سے روک دیا گیا تھا

روس نے پیر کے روز دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ سال ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے معاملے پر ترک صدر طیب اردوان نے روسی سربراہ ولادیمیر پیوٹن سے معذرت کر لی ہے، جس کا مقصد، بقول کریملن، یہ ہے کہ روس ترکی پر لاگو معاشی تعزیرات واپس لے۔
روسی فوجی جیٹ طیارہ نومبر میں مار گرایا گیا تھا جس میں پائلٹ ہلاک ہوا، جب روس شام کی فوجی کارروائی میں حصہ لے رہا تھا۔ ترکی کا کہنا تھا کہ اُس نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کیا کیونکہ طیارہ ترک فضائی حدود کے اندر داخل ہوگیا تھا۔ تاہم، روس اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔

اردوان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، روس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ''ایک بار پھر میں معذرت کرتا ہوں اور ہلاک ہونے والے روسی پائلٹ کے اہل خانہ کے ساتھ تہ دل سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہوں''۔
ادھر اردوان کے ایک ترجمان، ابراہیم کالین نے تصدیق کی ہے کہ پیوٹن کو مراسلہ بھیجا گیا تھا۔ تاہم، اُنھوں نے واضح طور پر معذرت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ خط میں اردوان نے افسوس کا اظہار کیا تھا اور پائلٹ کے اہل خانہ سے ''معذرت'' کی ہے۔
لڑاکا طیارہ مار گرانے کے ردِ عمل میں روس نے ترکی کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردیں تھیں، جن میں براستہ ترکی روس سے یورپ جانے والی گیس پائپ لائین کی تعمیر کے کام کو منجمد کردیا گیا تھا؛ جب کہ روسی سیاحوں کو ترک صحت افزا مقامات کی جانب جانے سے روک دیا گیا تھا۔
پیوٹن نے کہا تھا کہ یہ پابندیاں صرف اُسی صورت اٹھائی جائیں گی اگر اردوان ذاتی طور پر معافی مانگتے ہیں۔ روسی حکام کی جانب سے پیر کو تعزیرات اٹھائے جانے کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
اگر اس تنازعے کے حل کی جانب کوئی اقدام کیا جاتا ہے تو اِس سے شام کے تنازع پر سفارتی تنائو میں کمی آسکتی ہے۔ روس شام کے رہنما بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے، جب کہ ترکی باغیوں کا حامی ہے جو انھیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔