بہادری کے ساتھ رات اور دن ساحلی ہوا کے سر پھرے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو تعمیر ہوئے ایک صدی مکمل ہوگئی۔ یہ وہ عمارت ہے جس پر یہ شہر فخر کرتا آیا ہے۔
عمارت کی منفرد بات یہ ہے کہ جہاں یہ ایک جانب برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کی عکاس نظر آتی ہے تو دوسری طرف اسے رومن فن تعمیر سے بھی ملتا جھلتا کہا جاتا ہے، جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔ اتنے زیادہ فن تعمیر کے نمونوں کا روپ دکھانے والی اس جیسی کوئی اور عمارت پورے شہر میں نہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق اسی ماہ کی پانچ تاریخ کو یہ عمارت پورے 100 سال کی ہوگئی۔ اسی حوالے سے پچھلے ہفتے یہاں باقاعدہ صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیاتھا۔
’گیٹ وے آف انڈیا‘ اور ’کے پی ٹی بلڈنگ‘ کا ڈیزائنر ایک ہی ہے
کے پی ٹی کی ایگزیکٹو انجینئر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نور عین حسین کا کہنا ہے ’100 سال گزر جانے کے باوجود، عمارت کی تعمیر میں کارفرما شاندار آرکیٹکچر اور ڈیزائن حقیقی معنوں میں قابلِ ستائش ہے۔ عمارت کو بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان ہی نے ممبئی کی جانی پہچانی سنگ میل نوعیت کی عمارتیں بھی ڈیزائن کی تھیں جن میں ’پرنس آف ویلز میوزیم‘ اور ’گیٹ وے آف انڈیا‘ شامل ہیں۔‘
عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع ہوا جو 4سال کے عرصے میں تکمیل کو پہنچا، اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے یہاں5جنوری 1916ءکو کے پی ٹی ہیڈ آفس کا افتتاح کیاتھا، جبکہ بلڈنگ کی تعمیر پر مجموعی طور پر 9لاکھ 74ہزار 990روپے لاگت آئی تھی۔
کے پی ٹی نے تاریخی حوالوں کے ہمراہ دی گئی معلومات میں کہا ہے کہ عمارت تقریباً 1400 اسکوائر میٹر پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ عمارت کے عین درمیان میں واقع گنبد سے دائیں بائیں جانب گھوم جاتی ہے۔ یہی گھماوٴ اسے دوسری عمارتوں کے مقابلے میں قدآور بنادیتا ہے۔
دوسرا کلاسک طرز عمارت کے دروازے کھڑکیاں اور محرابین ہیں جو سائز میں بہت بڑی ہیں۔ مہارت سے ڈیزائن کردہ مجموعہ ان کی خوب صورتی بڑھتا ہے۔ عمارت کا داخلی اور خارجی حصہ بہت سادہ، لیکن منفرد ہے۔ کمرے کشادہ اور اونچی چھت والے ہیں۔ عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے اور اس کے کھڑی دروازے انتہائی مہنگی کہی جانے والی لکڑی ساگون سے تیار کردہ ہیں۔
کے پی ٹی چیئرمین وائس ایڈمرل (ر) شفقت جاوید کا کہنا ہے کہ ’اس عمارت کے افتتاح کے صرف ایک ماہ بعد ہی جنگ عظیم اول میں حکومت نے عمارت کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا اور 500بستروں کے ساتھ انڈین نیشنل اسپتال نے فوجی اسپتال کے طور پر اسے استعمال کیا، جبکہ 6مئی 1919ء کو اسے خالی کیا گیا۔‘
کراچی پورٹ ٹرسٹ ہیڈ آفس کا صرف ایک داخلی راستہ ہے۔ ایلیٹ بردارز کمپنی لندن کے نام سے ایک پرانی گھڑی بھی یہاں رکھی گئی ہے جو اپنی وراثتی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔