صوبہ خیبر پختونخواہ اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی حالیہ پالیسوں کی وجہ سے اُن کو کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پختونخواہ سول سوسائٹی نیٹ ورک اور ٹرائبل این جی اوز کنسورشیم کے عہدیداروں نے جمعرات کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے گزشتہ چند سالوں کے دوران جس قسم کی سخت پالیسیاں اور قوانین متعارف کروائے گئے اُس سے غیر سرکاری تنظیموں کے کام میں خلل پڑا ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اتحاد کے سربراہ ارشد ہارون نے کہا کہ غیر ضروری چھان بین اور”کلیئرنس‘‘ کے نام پر این جی اوز کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کی طرف سے محروم طبقوں کے لیے آواز بلند کرنے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
’’اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنا، خواتین کے مساوی حقوق اور ان کے خلاف تشدد نیز خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لیے بات کرنا ریاست کے خلاف بات کرنا تصور کیا جا رہا ہے۔‘‘
تاہم صوبائی حکومت کی طرف سے ان الزامات کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ البتہ اس سے قبل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ ایسی غیر سرکاری تنظیمیں جو اپنے وضع کردہ دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہی ہیں اُن کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی۔
2015ء میں وفاقی حکومت نے ملک میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق ایک قومی پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں یعنی آئی این جی اوز کو اپنے اندراج کے لیے از سر نو درخواست دینے کا کہا گیا تھا۔
حکومت کے اقدام پر امدادی ممالک، مقامی و بین الاقوامی تنظیموں اور بعض قانون سازوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملک میں سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی بلکہ قانون کے مطابق چلنے والی تنظیموں کے کام کو سہل بنانا چاہتی ہے۔