خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں میں دوسرے روز بھی ڈاکٹرز و عملے کا احتجاج اور ہڑتال جاری رہی۔
محکمہ صحت کے ملازمین اور ڈاکٹرز صوبائی حکومت کے اسپتالوں کے انتظام کے لیے نئے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی احتجاج کے دوران مظاہرین کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھی۔
ہفتے کے روز ڈاکٹرز اور عملے نے مکمل ہڑتال کی تاہم ایمرجنسی میں مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی گئیں۔
ایک روز قبل صوبائی اسمبلی میں اسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز کے انتظام کے لیے مقامی اور ضلعی اتھارٹیز کے قیام کے لیے قانون سازی کی گئی۔
ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے ملازمین کے اتحاد 'گرینڈ الائنس' کی اپیل پر اسمبلی کے سامنے مظاہرے کے لیے بڑی تعداد میں ڈاکٹرز، نرسز اور محکمہ صحت کے دیگر ملازمین پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں جمع تھے۔
مظاہرین نے جب اسمبلی کے سامنے احتجاج کے لیے جانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے فائر کیے۔
پولیس کی کارروائی کے دوران لگ بھگ ایک درجن افراد زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں گرینڈ الائنس کے صدر ڈاکٹر عالمگیر اور پروفیشنل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر زبیر بھی شامل تھے۔
پولیس نے کارروائی کے دوران 13 مظاہرین کو گرفتار کیا۔ حکام کے مطابق مجموعی طور پر 39 مظاہرین کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور نقص امن عامہ کے دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
نئے قانون کے مطابق صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں کا انتظام دیکھنے کے لیے مقامی اور ضلعی اتھارٹیز قائم کی جائیں گی جبکہ وزیر صحت کی سربراہی میں صوبائی سطح پر پالیسی بورڈ قائم ہو گا۔
بل کے مطابق ڈویژنل سطح پر قائم اتھارٹی کا سربراہ ڈاکٹر ہو گا جس کے لیے کم از کم دس سال کا تجربہ درکار ہوگا جبکہ صوبائی حکومت یا وزیر صحت کو کسی بھی وقت کسی بھی کمیٹی کو ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔
نئے قانون کے تحت تمام اسپتالوں اور طبی مراکز میں ڈاکٹرز اور عملے کی بھرتی یا تعیناتی پر اتھارٹیز حکومت کی پالیسی کے مطابق عمل کریں گی ۔
اس نئے قانون کے مطابق وزیر صحت کو ضلعی ہیلتھ اتھارٹیز کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
'یکم اکتوبر سے ایمرجنسی سمیت تمام فرائض معطل'
ڈاکٹرز گرینڈ الائنس کے قائم مقام صدر ڈاکٹر امیر تاج نے ہفتے کے روز پریس کانفرنس میں ہڑتال اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر امیر تاج کا کہنا تھا کہ ہڑتال صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان اور لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے بورڈ آف گورنرز کے سربراہ ڈاکٹر نوشیروان برکی کی برطرفی تک جاری رہے گا۔
ڈاکٹرز گرینڈ الائنس کے قائم مقام صدر کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر نوشیروان برکی 2013 سے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے بورڈ آف گورنر کے سربراہ ہیں۔ ان کا صوبائی سطح پر صحت کے پالیسی میں اہم کردار ادا ہے۔
ڈاکٹر امیر تاج نے کہا کہ قانون پر صوبائی وزیر صحت اور دیگر حکام سے مذاکرات کی اپیل کی تھی مگر وزیر صحت مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے۔
ان کے مطابق انہوں نے اسمبلی کے سامنے جائز مطالبات کے لیے مظاہرہ کیا تاہم انہیں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
ڈاکٹر امیر تاج نے کہا کہ ہڑتال ابھی وارڈز اور او پی ڈی تک محدود ہے۔ یکم اکتوبر سے وہ اسپتالوں میں ایمرجنسی سمیت تمام تر فرائض معطل کر دیں گے۔
'قانون کے تحت اسپتالوں کے لیے انتظامی و مالی خود مختاری'
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے صوبائی اسمبلی سے 'ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی بل' پاس ہونے پر کہا ہے کہ اب صحت کے نظام میں عوام کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے صوبے کے تمام اسپتالوں کو انتظامی اور مالی خود مختاری دی جائے گی۔
نئے قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ضلعی ہیلتھ اتھارٹی نہ صرف ادویات اور آلات کی خریداری میں خودمختار ہوگی بلکہ ڈاکٹرز اور نرسز کی تعیناتی بھی کی جا سکے گی۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اس قانون سے کسی اسپتال کی نجکاری نہیں ہوگی۔ ڈاکٹرز اور عملے کی سرکاری ملازمت کا درجہ برقرار رہے گا۔
ہڑتال سے عام شہریوں کو پریشانی
ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے عملے کے احتجاج کے خلاف پولیس کارروائی کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے شدید مذمت کی ہے۔
دوسری طرف ہڑتال کے باعث عام لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ہڑتال کے سبب پشاور سمیت دیگر علاقوں میں مریض نجی اسپتالوں اور طبی مراکز سے رُجوع کر رہے ہیں۔
کئی ایک سیاسی رہنما، سماجی کارکن اور بلدیاتی اداروں کے نمائندے ڈاکٹرز سے ہڑتال کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر رہے ہیں۔