پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مئی کے مہینے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں یکم مئی کو وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 18 ہزار 114 تھی لیکن 28 مئی کو جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 43 ہزار نئے کیسز کا اضافہ ہوا ہے اور اب تک مجموعی طور پر 61 ہزار سے زائد افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔
کیسز کی سب سے زیادہ تعداد یعنی 24 ہزار سے زائد صوبہ سندھ میں ہے جب کہ اموات کی تعداد اب تک خیبر پختونخوا میں زیادہ رہی ہے جہاں جمعرات کی صبح تک وائرس سے 425 ہو چکی ہیں۔
ادھر محکمہ صحت سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار میں ایک اور خطرناک رحجان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بچوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اعداو شمار کے مطابق 2 مئی کو کرونا وائرس سے متاثرہ 10 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 253 تھی لیکن محض 20 روز میں اس تعداد میں تین گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ تعداد بڑھ کر 788 ہوگئی۔
حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب نے اپنے بیان میں 10 سال سے کم عمر بچوں میں بڑھتے ہوئے کیسز کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے سماجی فاصلوں اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کے بجائے انہیں کھلے عام پامال کرتے ہوئے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو اس ماہ کے آخر تک متاثرہ بچوں کی تعداد تعداد ایک ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ اور معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچوں کی بڑی تعداد کے متاثر ہونے کی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی قربت ہے۔ اس لیے گھر میں ایک شخص بھی کرونا سے متاثر ہے تو وہ گھر میں موجود بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں بچوں کی آبادی کا تناسب دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ بھی ہے اور پھر احتیاط نہ کیے جانے کے سبب وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر جمال رضا نے کہا کہ کراچی کی سڑکوں اور مارکیٹوں پر عید کی خریداری اور دیگر امور کے لیے بچوں کو موٹر سائیکل پر کھلے عام گھمایا جا رہا تھا جس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر جمال رضا کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر کی طرح یہاں بھی فی الحال اس سے بچاؤ کا ذریعہ احتیاط کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو کرونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہیں بڑے اجتماعات، رش اور بھیڑ کے مقامات پر لے جانے سے گریز کیا جائے اور انہیں ہاتھ منہ دھونے کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دی جائے۔
ضیا الدین اسپتال سے منسلک ایک اور ماہر اطفال ڈاکٹر زین یوسف علی کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں میں امراض سے بچاؤ کی مزاحمت پہلے ہی کم ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں جس قدر ممکن ہو سکے گھر پر ہی رکھا جائے۔ اگر والدین میں سے کوئی کرونا کا شکار ہے تو اسے اپنی صفائی کے ساتھ بچوں کے صفائی کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو لازمی طور پر سماجی فاصلے پر رکھنے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر شیر خوار بچے کرونا سے متاثر ہوں تو بھی ان کے تحفظ کے لیے کسی صورت انہیں حفاظتی ٹیکوں کے کورس لگوانے میں تاخیر ہرگز نہ کی جائے۔
ڈاکٹر زین یوسف کے مطابق بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر گھر میں کوئی ایک بھی کرونا سے متاثر ہے تو گھر میں پیدا ہونے والا ماحول انہیں نفسیاتی طور پر بھی متاثر کر سکتا ہے اور اس سے بچے سہم جاتے ہیں۔
ان کے بقول اس لیے اپنے اعصاب کو مضبوط رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اپنے تحفظ کے ساتھ بچوں کو بھی اس وبا کے اثرات سے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور انہیں کسی صورت اس سے متاثر نہ ہونے دیا جائے اور اگر وہ متاثر ہو جائیں تو ان کا بے حد خیال رکھا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کرونا وائرس سے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق صوبے میں بچوں میں کرونا وائرس کے اس قدر تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بے احتیاطی اور لوگوں کی جانب سے وبا کو سنجیدہ نہ لینا ہے۔