خیبر پختونخوا: 12 ہزار والدین کا پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار

فائل فوٹو

خیبر پختونخوا میں 13 سے 16 جنوری تک چلائی گئی پولیو مہم کے دوران 12 ہزار والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان والدین کے خلاف قانونی کارروائی کی بجائے اُنہیں رضا مند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خیبر پختوںخوا میں 13 سے 16 جنوری تک 21 لاکھ 86 ہزار 626 بچوں کو پولیو ویکسین دیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 18 لاکھ 86 ہزار 626 بچوں کو قطرے پلائے گئے۔ لہذٰا لگ بھگ ڈھائی لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔

خیبر پختونخوا میں پولیو ہنگامی مرکز کے سربراہ عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ 12 ہزار والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ 26 ہزار بچوں کے گھروں میں عدم موجودگی کے باعث اُنہیں ویکسین نہیں دی جا سکی۔

گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ 136 مریضوں میں سے 92 کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا جبکہ 68 کا تعلق جنوبی بنوں ڈویژن سے تھا۔ سب سے زیادہ متاثرہ بچوں کا تعلق لکی مروت ضلع سے تھا۔

عبدالباسط خان نے بتایا کہ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران صوبے بھر میں 60 لاکھ سے زائد پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کی خصوصی مہم چلائی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پوری کوشش کریں گے کہ اس سال صوبے سے پولیو کا خاتمہ ہو جائے۔

خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں انکاری والدین کو منانے کے بارے میں عبدالباسط خان نے کہا کہ اس سلسلے میں علماء کرام، سابق بلدیاتی نمائندوں، طلبہ اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ 2019 پاکستان میں پولیو کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتہائی خطرناک رہا تھا۔ اس سال پولیو کے درجنوں کیسز نہ صرف دوردراز کے علاقوں بلکہ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور جیسے شہروں سے بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی پاکستان کے پولیو پروگرام کو ناقص قرار دیتے ہوئے مختلف سفارشات تجویز کی تھیں۔ البتہ حکومتِ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ پولیو کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔

گزشتہ سال اپریل میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں مبینہ طور پر پولیو قطرے پینے سے بعض بچوں کی حالت غیر ہونے پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ جس کے بعد حکومت کو پولیو مہم معطل کرنا پڑا تھی۔ اس واقعے کے بعد صوبے میں پولیو ویکسین کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔

گزشتہ سال وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے انسداد پولیو بابر بن عطاء بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اُنہیں ناقص کارکردگی کی بنا پر فارغ کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دُنیا کے تمام ممالک سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔