خیبرپختونخوا کے 12 اضلاع میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مراکز تاحال بند ہیں۔ تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے فنڈز جاری کر دیے ہیں اور یہ ادارے دسمبر تک کھول دیے جائیں گے۔
خیبر پختونخوا میں اقوام متحدہ کے تعاون سے چلنے والے یہ ادارے خیبر پختوںخوا حکومت کی جانب سے رقم مختص نہ کرنے کے باعث رواں سال جنوری میں بند کر دیے گئے تھے۔
ان اداروں کے قیام کا مقصد صوبے میں جنسی زیادتی اور بچوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام، بچوں کے تحفظ کے علاوہ عوام میں شعور اجاگر کرنا تھا۔
بچوں کے حقوق کے لیے قائم ایک سرکاری ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کے بعد عملے کی بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہارات دے دیے گئے ہیں۔ بھرتی کا یہ عمل دسمبر میں مکمل ہو جائے گا جس کے بعد یہ ادارے دوبارہ فعال ہو جائیں گے۔
ابتدائی طور پر خیبرپختونخوا کے آٹھ اضلاع میں یہ ادارے 2010 میں قائم کیے گئے تھے۔ بعدازاں 2013 میں ان کا دائرہ کار مزید چار اضلاع تک پھیلا دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت ان اداروں کی مالی معاونت کے لیے سالانہ تین کروڑ روپے مختص کرتی تھی۔ تاہم، یہ فنڈز جاری نہ ہونے پر رواں سال جنوری میں یہ ادارے غیر فعال ہو گئے تھے۔ ان اداروں کی بندش کے باعث محکمہ داخلہ کے ایک ذیلی دفتر میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کی زیر نگرانی بچوں سے متعلق معاملات کی نگرانی ہوتی تھی۔
اعجاز خان نے مزید بتایا کہ 2011 سے 2019 تک 12 اضلاع میں قائم ان دفاتر کے ذریعے صوبائی حکومت نے 30 ہزار سے زائد بچوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان میں 19 ہزار کے لگ بھگ بچے، گیارہ ہزار سے زائد بچیاں اور سات خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول، فن کاروں اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ان بارہ اضلاع میں یونین کونسل کی سطح پر 1068 رضا کار کمیٹیاں بنائی گئیں۔
بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے سرگرم عمران ٹکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فنڈز کے اجرا میں تاخیر سے بارہ اضلاع میں قائم یہ ادارے بند ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 میں منظور ہونے والے قانون کے تحت حکومت پابند ہے کہ نہ صرف ان اداروں کی معاونت کرے بلکہ ایسے ادارے صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی قائم کیے جائیں۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ عرصے میں بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں سال صوبے کے مختلف اضلاع میں کم سن بچیوں کے زیادتی کے بعد قتل کے واقعات پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چند روز قبل خیبر پختوںخوا حکومت کے مشیر تعلیم ضیا اللہ بنگش نے ایک متنازع نوٹی فکیشن جاری کیا تھا، جس میں طالبات کو ہراسانی سے بچنے کے لیے پردہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ تاہم، ملکی سطح پر ہونے والی تنقید کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔