خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ حزب اختلاف میں شامل جماعتوں نے بھی اس بل کی حمایت کی۔
حزب اختلاف میں شامل مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی دو خواتین اراکین اسمبلی نے رائے شماری کے وقت اس بل کے بعض نکات پر اعتراض کیا۔
جمعے کو اس بل کی منظوری کے وقت ایوان میں موجود 44 ارکان اسمبلی نے حمایت کی۔ جب کہ رائے شماری میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اس بل کی مخالفت نہیں کی۔
بل لگ بھگ سات سال قبل اسمبلی میں پیش ہوا تھا
خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے یہ بل گزشتہ صوبائی اسمبلی میں لگ بھگ سات سال قبل پیش کیا گیا تھا اور اس دوران اس بل پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اراکین اسمبلی نے متعدد اعتراضات اٹھائے۔ جب کہ یہ بل مختلف کمیٹیوں کے اجلاسوں میں اختلافات کا شکار بھی رہا۔
چند روز قبل صوبائی حکومت کے جانب سے یہ بل وزیر برائے سماجی بہبود ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے پیش کیا تھا۔
حزبِ اختلاف میں شامل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن شگفتہ ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس بل پر ایک خصوصی کمیٹی میں کافی غور ہوا تھا جس کے نتیجے میں اسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض اراکین نے اس بل میں خواتین کے لیے گھریلو تشدد کے الزامات کو ثابت کرنا لازم قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر زیادہ تر ارکان نے ان شرائط کی مخالفت کی۔
پانچ سال قید کی سزا تجویز
اس بل میں خواتین پر تشدد کرنے والے کو پانچ سال تک قید کی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل میں معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤ کو بھی خواتین پر تشدد کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے خیبر پختونخوا میں ضلعی تحفظاتی کمیٹیاں بنائی جائیں گی اور یہ کمیٹیاں متاثرہ خاتون کو طبی امداد، پناہ گاہ اور معقول معاونت فراہم کریں گی۔
اسی طرح گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ دائر کرنے کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی۔
اس قانون کے مطابق خواتین پر تشدد ہونے کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرائی جائے گی۔ جب کہ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ دو مہینوں میں سنانے کی پابند ہو گی۔
بل کے تحت عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی ایک سال قید اور 3 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
'قانون سازی میں ایک سنگِ میل عبور '
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش کے مطابق صوبائی حکومت نے قانون سازی میں ایک سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔ اس سے خواتین کا معاشی و معاشرتی تحفظ یقینی ہو گا۔
کامران بنگش نے کہا کہ خواتین ہمارے معاشرے کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں جن کا تحفظ حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔
تحریک انصاف کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی سمیرا شمس کے مطابق اس بل کی رو سے عدالتیں ایسے کیسز کا فیصلہ دو ماہ میں سنانے کی پابند ہوں گی اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی ایک سال قید اور تین لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر سمیرا شمس اس خصوصی کمیٹی کی رکن بھی تھیں جس نے اس بل کے مسودے پر متعدد اجلاس منعقد کیے۔
ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد سے بچاؤ اور حفاظت کے لیے بنائے گئے ترمیم شدہ قانون کے لیے ایسا طریقۂ کار اپنایا گیا ہے کہ خواتین بھی تشدد سے محفوظ رہیں اور مردوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی نا انصافی نہ ہو۔
ہر ضلعے میں خصوصی کمیٹی کا قیام
بل کی منظوری کے بعد ہر ضلعے میں خصوصی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر، سوشل ویلفئئر افسر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، پولیس کا ایک نمائندہ، ایک خطیب، گائناکولوجسٹ اور ماہر نفسیات شامل ہوں گے۔
یہ کمیٹی کسی بھی شکایت کا جائزہ باقاعدہ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں لے گی جس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ تشدد کی نوعیت کیا ہے۔
یہ کمیٹی فریقین کے درمیان مصالحت اور شکایت کنندہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے جیسے امور بھی سنبھالے گی۔
علاوہ ازیں ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی اور قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی کے فرائض بھی انجام دے گی۔
جماعت اسلامی کا خواتین کو وراثت میں حق دینے کی شق شامل کرنے کا مطالبہ
بل کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی کی رکن صوبائی اسمبلی حمیرا خاتون جنہوں نے واک آؤٹ بھی کیا، نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ وہ چاہتی تھیں کہ اس بل میں خواتین کو ان کی وراثت کا حق بھی دیا جائے۔ خلع کی صورت میں اس کو حق مہر بھی پورا ملے۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ جس پر انہوں نے بل کی مخالفت کی۔
حمیرا خاتون کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں ان کی جماعت اور دیگر اراکین نے جن نکات پر مخالفت کی تھی وہ یہ تھے کہ اس بل میں ازدواجی زندگی میں خواتین کو اپنی مرضی سے حاملہ ہونے اور حمل ضائع کرنے کا حق دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ خواتین کا اپنی مرضی سے حاملہ ہونے اور حمل ضائع کرنے کی یہ بات ہمیں معیوب لگتی تھی اور اس کے ہم خلاف تھے۔
ان کے مطابق دوسری بات بیویوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ بھلا شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی زیادتی کیسے ہوتی ہے۔ یہ ایک غلط بات تھی جس کے ہم مخالف تھے۔
حمیرا خاتون نے بتایا کہ ان کی جماعت خواتین کے حقوق کی حامی ہے لیکن اگر یہ حقوق قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔
طویل انتظار کے بعد قانون کی منظوری
خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کا مسودہ پہلی بار اگست 2012 میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی متحدہ حکومت میں پیش ہوا تھا جس پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے سابق رکن اسمبلی مفتی کفایت اللہ نے اعتراضات اٹھائے تھے۔
بعد ازاں 2014 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ نے اسے دوبارہ ڈرافٹ کیا اور جب محکمہ قانون نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا تو انہوں نے اس بل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
اس طرح یکے بعد دیگرے یہ بل 2016، 2018 اور 2019 میں پیش ہوتا رہا اور ہر بار مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتا رہا۔
اس ضمن میں سول سوسائٹی کی جانب سے اس موضوع پر ہونے والے سیکڑوں سیمینارز اور ورکشاپس بھی غیرمؤثر رہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین محمد خان شیرانی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اسلام سے بغض رکھنے والے پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے بل پیش کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل چھ استعمال کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی سے مطالبہ کیا تھا کہ جلدی میں اس بل کی منظوری سے گریز کریں۔ تاہم صوبائی وزیرِ قانون سلطان محمد خان نے اس بل کا دفاع کیا اور یہ یقین دلایا کہ حکومت بل کی منظوری میں جلد بازی نہیں کرے گی۔
انہوں نے ایوان کے تمام اراکین خصوصاً حزب اختلاف اور خواتین قانون سازوں کو بھی دعوت دی کہ اس قانون میں ترامیم تجویز کریں۔
اس بل کے پاس ہونے سے قبل خیبر پختونخوا پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے گھریلو تشدد کے قانون کی منظوری نہیں دی تھی۔
صوبہ سندھ 2013 میں، بلوچستان 2014 میں اور پنجاب 2016 میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد سے بچاؤ اور تحفظ بل کی منظوری دے چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے بعد صرف وفاقی سطح پر اس قسم کے قانون کا متعارف ہونا باقی ہے۔