پاکستان کے بالائی صوبے خیبر پختونخواہ میں فنکاروں اور موسیقاروں پر مشتمل’فن کی دنیا‘ ویران ہو رہی ہے۔ب دھ کو ایک اور فنکار قتل ہوگیا۔ سنیماہالز دھماکوں سے گونج رہے ہیں تو میوزیکل کنسرٹس ہوئے زمانے بیت گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس صورتحال سے بچانے والا بھی کوئی نہیں
کراچی —
پاکستان کے صوبہٴ خیبر پختونخواہ میں فنکاروں کی دنیا اجڑ رہی ہے، اس حد تک کہ اب یہاں کوئی بھی فنکار مر جائے ’شکوہ نہیں ہوتا‘۔ گزشتہ روز پشتو کے مقامی گلوکار وزیر خان آفریدی، جن کا خیبر ایجنسی میں بہت شہرہ تھا، نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔۔۔لیکن کہیں کوئی شور نہیں ہوا۔۔۔
فن کی دنیا کے لئے یہ خیال ہی ایک ’دھماکا‘ ہے کہ ایک کے بعد ایک فنکار کا ’قتل عام‘ ہو رہا ہے، لیکن شاید اس دھماکے کی آواز ’دوسرے دھماکوں‘ کے شور میں دب کر رہ گئی ۔۔اور کوئی بھی اسے نہ سن سکا۔
مقامی طور پر وزیر خان آفریدی کو ’سریلا فنکار‘ کہا جاتا تھا۔ مگر پشاور کے نواحی علاقے فقر کلے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ نے اس سریلی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ پشاور کے ایک رہائشی دلفراز نے مقامی میڈیا میں آنے والی وزیر خان آفریدی کی موت کی خبروں پر ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴخیال میں کہا ’وزیر خان ’فن کا شہید‘ ہے۔ اسے عسکریت پسندوں نے گانا گانے سے منع کیا تھا۔ لیکن وہ اپنے فن پر، اپنے شوق پر قربان ہوگیا۔‘
وزیر خان خبیر ایجنسی میں اپنے منفرد انداز گائیگی کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ان کی 40 البم مارکیٹ ہوچکی ہیں۔ پہلے وہ باڑہ میں رہائش پذیر تھے۔ لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں کے بعد انہیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان پر گلوکاری چھوڑنے کا دباوٴ تھا۔ جبکہ، انہیں انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ جبکہ، تین مرتبہ انہیں اغوا بھی کیا گیا۔ لیکن، گائیکی ترک کرنے کے وعدے پر انہیں رہا کردیا گیا۔
پشاور میں گلوکاروں کی حالت زار
پشاور سے جمعرات کی دوپہر ہی کراچی پہنچنے والے آئی ٹی پروفیشنل سید اسلم نے ’وی او اے‘ کے نمائندے کو بتایا ’پشاور زیادہ تر افغان اور پاکستان طالبان کے زیر اثر رہا ہے جن کے نزدیک گانا حرام ہے اسی لئے وہ مقامی فنکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں پر اس پیشے کو ترک کرنے کے لئے دباوٴ ڈالتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مجبوراً ہی سہی بیشتر فنکاروں نے یہ دباوٴ قبول کرلیا ہے۔جس کے بعد وہ ٹیکسیاں چلا رہے ہیں یا ایسا ہی کوئی اور چھوٹا موٹا کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ ابھی تک ذہنی طور پر اپنا فن نہیں بھلا سکے وہ اپنے آبائی شہروں سے نکل کر ’بے گھر‘ ہوگئے۔ان میں سے بعض نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘
پشاور کا ایک بازار ایسا بھی ہے جو کہلاتا تو ’کباڑی بازار‘ ہے۔ لیکن، یہاں کبھی بڑے پیمانے پر آڈیو البم کے ریکارڈنگ سینٹرز ہوا کرتے تھے۔ میوزک کیسٹس اور بعد میں سی ڈی و ڈی وی ڈی کی بھی یہاں بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ لیکن، اب یہاں کی دنیا ویران اور اجڑی، اجڑی ہے۔
وزیر خان آفریدی بھی باڑہ سے پشاور آنے کے بعد سے اسی کباڑی بازار میں اپنے ہی جیسے دیگر سنگرز کے ساتھ مقیم تھے۔ سید اسلم کا کہنا ہے ’خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں کے زیادہ تر گلوکار صوبے کے مختلف شہروں میں ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ان میں سے کچھ یہاں مقیم ہیں لیکن ان کی حالت دیگرگوں ہونے کے ساتھ ساتھ بری طرح سہمی ہوئی ہے۔‘
طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور مختلف پر تشدد واقعا ت کے بعد صوبے میں آڈیو البم کی مانگ میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس سے موسیقی کی صنعت سمٹ کر رہ گئی ہے۔ پشاور کے تمام میوزیکل سینٹرز نے فنکاروں کی خدمات لینا بندکردی ہیں۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے سبب میوزیکل کنسرٹس ہوئے زمانے بیت گئے۔ فنکاروں کا کہنا ہے کہ کانسرٹس ہی ان کی ستائش اور مالی مسائل کا حل تھے۔ اب کچھ ہی پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینلز رہ گئے ہیں جو انہیں کبھی کبھار بلالیتے ہیں۔
خیبرایجنسی کے مقامی فنکارو ں میں غزل سرا خیال محمد، رفیق شنواری، انور خیال، حشمت سحر، سرفراز خان اور ظفر اقرار وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فنکار۔۔خواہ وہ صوبے کے کسی بھی حصے میں مقیم ہو، موسیقی اور گلوکاری میں اچھے دنوں کی واپسی کی امیدبھی نہیں رکھتا۔ یقینا۔۔یہ ’سانحے‘ سے بڑا’ حادثہ‘ ہے۔
فن کی دنیا کے لئے یہ خیال ہی ایک ’دھماکا‘ ہے کہ ایک کے بعد ایک فنکار کا ’قتل عام‘ ہو رہا ہے، لیکن شاید اس دھماکے کی آواز ’دوسرے دھماکوں‘ کے شور میں دب کر رہ گئی ۔۔اور کوئی بھی اسے نہ سن سکا۔
مقامی طور پر وزیر خان آفریدی کو ’سریلا فنکار‘ کہا جاتا تھا۔ مگر پشاور کے نواحی علاقے فقر کلے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ نے اس سریلی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ پشاور کے ایک رہائشی دلفراز نے مقامی میڈیا میں آنے والی وزیر خان آفریدی کی موت کی خبروں پر ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴخیال میں کہا ’وزیر خان ’فن کا شہید‘ ہے۔ اسے عسکریت پسندوں نے گانا گانے سے منع کیا تھا۔ لیکن وہ اپنے فن پر، اپنے شوق پر قربان ہوگیا۔‘
وزیر خان خبیر ایجنسی میں اپنے منفرد انداز گائیگی کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ان کی 40 البم مارکیٹ ہوچکی ہیں۔ پہلے وہ باڑہ میں رہائش پذیر تھے۔ لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں کے بعد انہیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان پر گلوکاری چھوڑنے کا دباوٴ تھا۔ جبکہ، انہیں انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ جبکہ، تین مرتبہ انہیں اغوا بھی کیا گیا۔ لیکن، گائیکی ترک کرنے کے وعدے پر انہیں رہا کردیا گیا۔
پشاور میں گلوکاروں کی حالت زار
پشاور سے جمعرات کی دوپہر ہی کراچی پہنچنے والے آئی ٹی پروفیشنل سید اسلم نے ’وی او اے‘ کے نمائندے کو بتایا ’پشاور زیادہ تر افغان اور پاکستان طالبان کے زیر اثر رہا ہے جن کے نزدیک گانا حرام ہے اسی لئے وہ مقامی فنکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں پر اس پیشے کو ترک کرنے کے لئے دباوٴ ڈالتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مجبوراً ہی سہی بیشتر فنکاروں نے یہ دباوٴ قبول کرلیا ہے۔جس کے بعد وہ ٹیکسیاں چلا رہے ہیں یا ایسا ہی کوئی اور چھوٹا موٹا کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ ابھی تک ذہنی طور پر اپنا فن نہیں بھلا سکے وہ اپنے آبائی شہروں سے نکل کر ’بے گھر‘ ہوگئے۔ان میں سے بعض نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘
پشاور کا ایک بازار ایسا بھی ہے جو کہلاتا تو ’کباڑی بازار‘ ہے۔ لیکن، یہاں کبھی بڑے پیمانے پر آڈیو البم کے ریکارڈنگ سینٹرز ہوا کرتے تھے۔ میوزک کیسٹس اور بعد میں سی ڈی و ڈی وی ڈی کی بھی یہاں بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ لیکن، اب یہاں کی دنیا ویران اور اجڑی، اجڑی ہے۔
وزیر خان آفریدی بھی باڑہ سے پشاور آنے کے بعد سے اسی کباڑی بازار میں اپنے ہی جیسے دیگر سنگرز کے ساتھ مقیم تھے۔ سید اسلم کا کہنا ہے ’خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں کے زیادہ تر گلوکار صوبے کے مختلف شہروں میں ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ان میں سے کچھ یہاں مقیم ہیں لیکن ان کی حالت دیگرگوں ہونے کے ساتھ ساتھ بری طرح سہمی ہوئی ہے۔‘
طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور مختلف پر تشدد واقعا ت کے بعد صوبے میں آڈیو البم کی مانگ میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس سے موسیقی کی صنعت سمٹ کر رہ گئی ہے۔ پشاور کے تمام میوزیکل سینٹرز نے فنکاروں کی خدمات لینا بندکردی ہیں۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے سبب میوزیکل کنسرٹس ہوئے زمانے بیت گئے۔ فنکاروں کا کہنا ہے کہ کانسرٹس ہی ان کی ستائش اور مالی مسائل کا حل تھے۔ اب کچھ ہی پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینلز رہ گئے ہیں جو انہیں کبھی کبھار بلالیتے ہیں۔
خیبرایجنسی کے مقامی فنکارو ں میں غزل سرا خیال محمد، رفیق شنواری، انور خیال، حشمت سحر، سرفراز خان اور ظفر اقرار وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فنکار۔۔خواہ وہ صوبے کے کسی بھی حصے میں مقیم ہو، موسیقی اور گلوکاری میں اچھے دنوں کی واپسی کی امیدبھی نہیں رکھتا۔ یقینا۔۔یہ ’سانحے‘ سے بڑا’ حادثہ‘ ہے۔