شام میں پر تشدد کارروائیوں میں تیزی، کیری کی حل کی کوششیں

حلب

خبر رساں اداروں نے نام نہ ظاہر کیے گئےامریکی اہل کاروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکہ ’’جَلّی حروف‘‘ میں ’’محفوظ زون‘‘ کی نشاندہی کرنے پر غور کر رہا ہے، جن کی مدد سے شہریوں اور معتدل حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ارکان کو پناہ فراہم کی جا سکے

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کو عجلت میں تیار کردہ 20 گھنٹے کا دورہٴ جنیوا مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی شام میں تشدد کے واقعات میں آنے والی تیزی کو بند کرانے کے لیے ’’متعدد تجاویز‘‘ زیر ِغور لا رہے ہیں۔

امریکی سفارت کاروں نے یہ نہیں بتایا آیا یہ تجاویز کیا ہیں۔ تاہم، اُن کا مقصد جُزوی امن معاہدے کو بحال کرنا اور روس کی پشت پناہی والی حکومتِ شام کی افواج کو روکنا ہے جنھوں نے گذشتہ 11 روز کے دوران حلب میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے۔

خبر رساں اداروں نے نام نہ ظاہر کیے گئےامریکی اہل کاروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکہ ’’جَلّی حروف‘‘ میں ’’محفوظ زون‘‘ کی نشاندہی کرنے پر غور کر رہا ہے، جن کی مدد سے شہریوں اور معتدل حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ارکان کو پناہ فراہم کی جا سکے۔

روس نے کوئی مدد نہیں کی
کیری کے لیے روس سے حمایت کا حصول اہمیت کا حامل لیکن مغالطے میں ڈالنا والا معاملہ ہے۔ اُنھوں نے روس پر زور دیا ہے کہ اسد کی افواج کو روکا جائے کہ وہ شام کے سب سے بڑے شہر کے اُن حصوں پر حملے روکے، جہاں باغیوں کا کنٹرول ہے۔

پیر کے روز اپنے سعودی ہم منصب عادل الجبیر اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا سے ملاقاتوں کے بعد، کیری نے کہا ہے کہ ’’کئی ایک تجاویز زیر غور ہیں جو دستخط کی غرض سے کلیدی فریق کو بھیجی جا رہی ہیں‘‘۔

کیری نے کہا کہ ’’ہمیں توقع ہے۔ لیکن، ابھی ہم اس مرحلے میں داخل نہیں ہوئے‘‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی اگلے 24 گھنٹے، 48 گھنٹوں کے دوران اس مرحلے تک پہنچنے کی سخت جستجو کر رہے ہیں‘‘۔

کیری نے کہا کہ اگلے دِنوں کے دوران حلب سے متعلق سمجھوتے کا اعلان ہو سکتا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بات چیت میں شرکت نہیں کی، جس کے باعث جنیوا میں کیری کی جانب سے کی جانے والی کوششیں مشکل میں پڑ گئی ہیں۔ کیری نے بتایا کہ وہ ٹیلی فون پر لاوروف سے بات کریں گے۔ ادھر، منگل کو ڈی مستورا ماسکو جانے والے ہیں۔

امریکہ کے لیے یہ ثابت کرنا کہ پانچ برس سے جاری اس تنازعے کو حل کرنے کی کوششیں ضائع نہ جائیں، اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن، ایسے میں جب روسی پشت پناہی میں حکومتِ شام کی افواج بڑے رقبے پر دوبارہ قبضے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا امریکہ کی جانب سے سختی نہ برتنے کے نتیجے میں علاقے میں روسی فتح کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔

ڈیوڈ بُٹر، مشرقی وسطیٰ پر لندن کے ’چیتھم ہاؤس‘ سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’’ہم اِس تنازع کے اُس مرحلے میں ہیں جہاں فائدے کے حصول کی تگ و دو میں پہل کی جا رہی ہیں‘‘۔ بقول اُن کے، ’’کوئی شک نہیں کہ اسد حکومت پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘‘۔

فیصلہ کُن لڑائی

حلب کو فتح کرنے کی یہ کلیدی لڑائی ایسے وقت ہو رہی ہے جب تنازع کے حوالے سے خطے میں امریکی عزم کا امتحان لیا جا رہا ہے۔

کیری یہ دورہ ایسے وقت کر رہے ہیں جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ شہر کی انسانی تحفظ کی صورت حال تیزی سے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے، اور اسد حکومت اور اعتدال پسند مخالفین کے درمیان بالمشافیٰ بات چیت ناکام ہوچکی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں اور مظالم انتہا کو پہنچ چکی ہیں، جن سے امریکہ کو یہ موقع میسر ہے کہ وہ اِس تنازع کے حل کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکے۔

ایسے میں جب دو ہفتے قبل شامی افواج نے حلب پر تازہ ترین حملے کی تیاری کی، روس نے اِن کوششوں کو انسداد ِدہشت گردی کی کارروائی کا کامیابی سے نام دے دیا، تاکہ النصرہ محاذ کو ہدف بنایا جاسکے، جسے امریکہ اور روس ایک دہشت گرد گروپ خیال کرتے ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی حکام، دانستہ طور پر یا یوں ہی، یہ تصور کر لیا گیا کہ امریکہ کو شروع کی گئی حلب کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں۔ امریکی اہل کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شہر میں النصرہ محاذ ایک غالب طاقت ہے، جو جنگ بندی کا ’’حصہ نہیں‘‘ ہے۔