پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں ایک بار پھر تین بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے لرزہ خیز واقعے پر شہری سراپا احتجاج ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق قصور کی تحصیل چونیاں میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران چار بچوں کے اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے تین کی لاشیں منگل کو مٹی کے ٹیلوں کے قریب سے ملی تھیں۔
ان بچوں میں فیضان، علی حسنین اور سلمان شامل ہیں جب کہ ایک بچہ 12 سالہ عمران اب بھی لاپتا ہے۔
پولیس کے مطابق ایک بچے کی لاش شناخت کے قابل جب کہ دو بچوں کی لاشیں ناقابلِ شناخت تھیں۔ بچوں کے جسم کے کچھ اعضا بھی الگ پائے گئے تھے۔
یہ لاشیں اس وقت ملیں جب ایک ٹریکٹر ٹرالی والا مٹی لینے اس علاقے میں پہنچا اور اس نے لاشیں دیکھیں، جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔
پولیس کے مطابق، ان واقعات کے بعد آٹھ ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔
اہلِ علاقہ نے ان واقعات کو پولیس کی لاپرواہی قرار دیتے ہوئے بدھ کو احتجاج کیا جب کہ مقامی تاجروں نے بھی واقعے کے سوگ میں کاروباری مراکز بند رکھے۔
مشتعل مظاہرین نے مقامی پولیس اسٹیشن پر توڑ پھوڑ کی اور ٹائر جلا کر مرکزی سڑک بھی بلاک کر دی۔
چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم
چونیاں واقعے کی تحقیقات کے لیے آئی جی پنجاب عارف نواز کی جانب سے چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم قائم کر دی گئی ہے۔
تحقیقاتی ٹیم میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور عبدالغفار قیصرانی، ایس پی انویسٹی گیشن قصور شہباز الہٰی، ایس پی قدوس بیگ اور اے ایس پی ننکانہ صاحب کے علاوہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کا ایک نمائندہ بھی شامل ہے۔
پنجاب پولیس کے ترجمان اور ایڈیشنل آئی جی انعام غنی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا ہے کہ واقعے کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم روزانہ کی بنیاد پر کام کرے گی۔ ٹیم میں حساس اداروں کے افسران کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے، ضروری نہیں ہے کہ وہ ہی اصل ملزمان ہوں۔ البتہ تحقیقات کے بعد اصل مجرمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
قصور میں بچوں کے قتل اور زیادتی کے واقعات
قصور میں زیادتی کے بعد بچوں کے قتل کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال قصور کی آٹھ سالہ زینب کے قتل کے واقعے پر ملک بھر میں غم و غصّے کا اظہار دیکھا گیا تھا۔
قصور میں زینب کے علاوہ بھی بچیوں کے اغوا اور قتل کے واقعات رونما ہوئے تھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ پولیس نے واقعے کے بعد درجنوں ملزمان کو حراست میں لے کر ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے تھے، جس کے بعد عمران نامی ملزم کو زینب کے قتل کا ملزم قرار دیا گیا تھا جسے بعد ازاں پھانسی دے دی گئی تھی۔
چند سال قبل قصور میں ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر مشتمل کچھ ویڈیوز بھی منظرِ عام پر آئی تھیں۔