بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی قیادت نے نئی دہلی کی جانب سے وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کی حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔
کشمیری قیادت نے کہا ہے کہ کشمیر کے حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی منسوخی سمیت سخت اقدامات کرے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی علیحدگی پسندوں جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حرّیت کانفرنس، جمّوں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعتِ اسلامی جمّوں و کشمیر کے نمائندوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے حالیہ اقدامات کے ذریعے کشمیر پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا ہے جب کہ پاکستان کو اپنے آپ کو بحیثیت فریق ثابت کرنا پڑ رہا ہے۔
علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حرّیت کانفرنس (سید علی گیلانی) کے رہنما سیّد محمد عبداللہ گیلانی نے کہا کہ بھارت عالمی برادری کو یہ کہہ رہا ہے کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جبکہ وہ اسے بات چیت کے ذریعے حل کرلیں گے۔ لیکن بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35-اے کی یک طرفہ منسوخی سے پاکستان کی فریقانہ حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حالات غیر معمولی ہیں جو روایتی مدد اور حمایت کا تقاضا نہیں کرتے، لہٰذا پاکستان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
عملی اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے علیحدگی پسند رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فوری طور پر بھارت کے ساتھ تمام دو طرفہ معاہدے منسوخ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ کس قسم کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی چل رہی ہے، کرتار پور راہداری پر بھی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو سنجیدگی دکھانا ہو گی اور اسی طرح کے شدید اقدامات لینا ہوں گے جس طرح بھارت نے کشمیر میں اٹھائے ہیں۔‘
عبداللہ گیلانی نے مزید کہا کہ ’بھارت کی جانب سے کشمیر میں اٹھائے گئے حالیہ اقدامات پاکستان کی سلامتی کے اداروں کے لیے پیغام ہیں کہ بے شک آپ کشمیر کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں، لیکن عملی اقدام کسے کہتے ہیں، وہ ہم بتاتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور وادی میں لاک ڈاؤن کی صورتِ حال کو چھ ہفتے ہونے والے ہیں۔
بھارتی کشمیر اسمبلی کے سابق رکن اور جماعتِ اسلامی جمّوں و کشمیر کے اُمور خارجہ کے انچارج غلام نبی نوشہری کہتے ہیں کہ نریندر مودی نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق جمّوں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو ان کے بقول قانونی جارحیّت سے ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے سیاست دانوں، سفارت کاروں اور اربابِ اقتدار نے بروقت قدم نہیں اٹھایا۔
غلام نبی نے کہا کہ پانچ اگست کے بعد سے 10 ہزار کشمیری نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور کشمیری بدترین ظلم اور جبر کے دور سے گزر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام پاکستان کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کی فوج پر لازم ہے کہ وہ جمّوں و کشمیر کے عوام کی مدد کے لیے کشمیر میں داخل ہو۔
غلام نبی نوشہری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی فوج کے کشمیر میں قدم رکھتے ہی پورا کشمیر ان کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔
’جمّوں و کشمیر لبریشن فرنٹ‘ کے نمائندے محمّد رفیق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر دو طرفہ معاہدوں کی منسوخی کا اعلان کرے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر میں اپنی امن فوج بھیجے اور انہیں تاریخ کے ’بدترین مظالم‘ سے نجات دلائے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے متعلق کشمیری رہنماؤں نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ سمیت ہر اس ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے کو تیار ہیں جس میں تینوں فریق (یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری) نمائندگی رکھتے ہوں۔
تینوں جماعتوں کے نمائندوں نے کہا کہ سرینگر میں ان کی مرکزی قیادت حراست میں ہے جس کے باعث ان کا کوئی بیان سامنے نہیں آ رہا۔ لیکن ان کا یہ مشترکہ مطالبہ ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کرے اور دو طرفہ معاہدے منسوخ کر دے۔
خیال رہے کہ جمعرات کو امریکی دفترِ خارجہ نے بھی بھارتی حکّام سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر کشمیری قیادت کے ساتھ بات چیت کریں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکومتی رہنما بھی پاکستان کے اقدامات سے زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر نے بدھ کو کشمیری قیادت کا اجلاس بلایا تھا جس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو ختم کرکے سیز فائر لائن قرار دینے اور ایل او سی کو عوامی مارچ کے ذریعے عبور کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا۔
راجہ فاروق حیدر نے کشمیری قیادت کو یقین دلایا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مظفّر آباد میں جلسے کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت سے مشاورت کریں گے اور پھر ایل او سی عبور یا دیگر اقدامات کرنے کا اعلان کریں گے۔