پاکستان کی فوج کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کی وجہ سے پاکستان نے اپنی فوج کے کچھ دستے افغان سرحد سے منتقل کر کے بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر تعینات کر دیے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ جب بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھتی ہے تو پاکستان کو اپنے فوجی دستے، افغانستان سے ملحق سرحد سے ہٹا کر اپنی بھارت کی سرحد پر تعینات کرنے پڑتے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مغربی سرحد سے پاکستانی فوجی دستوں کو ہٹانے سے عسکریت پسندوں کی دراندازی پر قابو پانے کے وسائل کم ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا پاک افغان سرحد سے کنٹرول لائن پر فوجی دستوں کی منتقلی سے متعلق ایک سوال پر کہنا تھا کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ہم اس کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
پاکستانی فوج کے عہدیدار کا مزید کہنا ہے کہ رواں سال فروری میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی افواج ہائی الرٹ ہیں۔
جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دہشت گرد حملے میں لگ بھگ 40 بھارتی سیکورٹی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تنازع کشمیر پر امریکی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی مغربی سرحد سے فوجیں ہٹا کر مشرقی سرحد پر تعینات کر رہا ہے۔
امریکہ میں اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیا سینٹر سے منسلک شجاع نواز سمجھتے ہیں کہ پاکستان، امریکہ کے سامنے ایک کیس بنا رہا ہے۔
شجاع نواز کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی سے پہلے ہی دولت اسلامیہ سمیت غیر ملکی عسکریت پسند گروہ پاک افغان سرحد سے متصل صوبوں ننگر ہار، نورستان اور کنڑ میں داخل ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شجاع نواز کا کہنا تھا کہ اگر ان عسکریت پسند گروہوں کو نظر انداز کیا گیا تو پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ جس کا فائدہ اٹھا کر عسکریت پسند پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اور دولت اسلامیہ (آئی ایس)
مشرقی سرحد سے پاکستان فوج ہٹائے جانے کی پیش رفت کے بعد افغانستان میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ پاکستان سرحد پر دولت اسلامیہ کی موجودگی کو نظر انداز کرے گا یا پھر پاکستان، افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے دولت اسلامیہ کو طالبان کے متبادل کے طور پر استعمال کرے گا۔
ماضی میں بھی افغان حکام کی سوچ رہی ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔
ترجمان افغان وزارت دفاع جنرل محمد رادمنیش کا کہنا ہے خفیہ اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دارالحکومت کابل اور اس سے ملحقہ علاقوں میں حملے کر سکے۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ بد قسمتی سے ہماری علاقائی خفیہ ایجنسیاں دولت اسلامیہ کو طاقتور گروہ کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
رادمنیش نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے دولت اسلامیہ کا نام استعمال کر کے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔
بلوچستان میں خدمات سرانجام دینے والے ایک سابق انٹیلی جنس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے پیش نظر، پاکستان دولت اسلامیہ کی حمایت کر سکتا ہے۔
افغان تجزیہ کار زمریارے عباسین کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) کی مدد کے بغیر دولت اسلامیہ اتنی مضبوط نہیں ہو سکتی تھی۔
عباسین کا مزید کہنا ہے کہ یہ بالکل پہلے جیسا ہی ہے۔ جب پاکستان نے غیر ملکی جنگجوؤں کو ڈیورنڈ لائن کے ساتھ آنے کی اجازت دی اور انہیں افغانستان میں استعمال کیا۔
افغانستان کے صوبہ لغمان کے سابق گورنر اور تجزیہ کار آصف ننگ کا کہنا ہے کہ طالبان اور دولت اسلامیہ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ایک حملے کرتا ہے اور دوسرا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
پاکستان دولت اسلامیہ کی حمایت کے الزامات کو رد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کے پاس دہشت گردی کی حمایت کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان کی طرف سے دولت اسلامیہ کو طالبان کے متبال کے طور پر افغانستان میں حمایت کرنے یا محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے ثبوت نہیں ملے۔
اُن کے بقول اگر پاکستان نے ایسا کیا تو یہ خود کشی کے مترادف ہو گا۔