بھارت میں انٹرنیشنل فلم فیسٹویل کے دوران اسرائیلی فلم ساز کی جانب سے بالی وڈ فلم 'دی کشمیر فائلز' کو پروپیگنڈا اور بے ہودہ فلم قرار دینے پر نئی دہلی میں اسرائیلی سفیر نے بھارتی حکومت سے معذرت کر لی ہے۔
بھارت میں اسرائیلی سفیر ناؤر گیلون نے نادو لیپڈ کے نام ایک خط میں کہا کہ "آپ کو بھارت میں فلمی میلے کے لیے بطور جج مدعو کیا گیا، لیکن آپ نے میزبان ملک کی جانب سے دی گئی عزت و احترام کی توہین کی، لہذٰا آپ کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔"
اسرائیلی سفیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان ریاست اور عوام کی سطح پر دوستی بڑی مضبوط ہے اوریہ نادو لیپڈ کی طرف سے پہنچائے جانے والے نقصان سے متاثر نہیں ہو گی۔
اسرائیلی سفیر نے نادو لیپڈ کے ریمارکس کے ردِ عمل میں کئی ٹوئٹس کیں اور کہا کہ ایک انسان ہونے کے ناطے وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور "ہم نے جس برے طریقے سے اپنے میزبانوں کی سخاوت اور دوستی کا انہیں صلہ دیا ہے اُس کے لیے میں اُن سے معافی مانگنا چاہتا ہوں"۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی تہذیب و ثقافت میں مہمان کا درجہ بھگوان کے برابر ہے لیکن نادو لیپڈ نے اس عزت و احترام کی توہین کی ہے۔
'دی کشمیر فائلز ' میں کیا دکھایا گیا ہے؟
رواں برس مارچ میں ریلیز ہونے والی فلم 'دی کشمیر فائلز' کی کہانی 80 کی دہائی کے اختتام پر کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہونے اور اس دوران ہندو پنڈتوں کی مبینہ ٹارگٹ کلنگ اور ان کی نقل مکانی کے گرد گھومتی ہے۔
کشمیر میں برہمن ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ مظالم دکھانے والی اس فلم نے بھارت کی سیاست میں بھی ہلچل مچا دی تھی۔ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی کہہ چکے ہیں کہ جسے یہ فلم پسند نہیں، وہ اپنی فلم بنا لے۔
اس فلم کو گوا میں جاری فلمی میلے کے دوران 22 نومبر کو دکھایا گیا تھا۔
بھارت کی اُن نو ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے 'دی کشمیر فائلز' پر تفریحی ٹیکس معاف کیا گیا تھا۔ اس رعایت کے ساتھ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے عوام کو یہ فلم دیکھنے کی ترغیب بھی دی تھی۔اس فلم نے نہ صرف بھارت میں بلکہ کئی بیرونی ممالک میں بھی ریکارڈ توڑ بزنس کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'فلم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھا دی'
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فلم میں تاریخی واقعات کو اسکرین پر دکھاتے ہوئے مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے سے کام لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق فلم میں ایک تاریخی المیے کو غیر ذمے داری اور 'اسلامو فوبیا' کے تناظر میں دکھاکر مسلمانوں اور بالخصوص وادیٔ کشمیر کے اکثریتی مسلم طبقے کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ناقدین نے بالی وڈ اداکار انوپم کھیر جو خود ایک کشمیری پنڈت ہیں اور فلم کے ہدایت کار وویک اگنی ہوتری پر جنہیں بی جے پی کے قریب اور اس کے ہندوتو ایجنڈے کا حمایتی سمجھا جاتا ہے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے یہ فلم ایک مخصوص سیاسی پیغام دینے کے لیے بنائی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے نریندر مودی حکومت اور بی جے پی پر اس فلم کو اپنے ہندوتو ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ناقدین اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ 'دی کشمیر فائلز' نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پہلے سے موجود دوریوں کو بڑھانے کا موجب بن گئی ہے بلکہ اس کی نمائش کے بعد ہندو انتہاپسندوں کی طرف سےمسلمانوں پر حملوں میں شدت آگئی۔
لیکن وزیرِ اعظم مودی نے اس فلم سے متعلق سخت رائے رکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور کہا تھا کہ 'دی کشمیر فائلز' کو بدنام کرنے کے لیے ایک سازش کی گئی ہے۔
فلم حقائق کی عکاسی کرتی ہے: اگنی ہوتری
ہدایت کار اگنی ہوتری نے اُن پر لگائے جانے والے الزامات کو رد کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے اس فلم میں کشمیری پنڈتوں پر ڈھائے گئے مظالم اور اُن کی حالتِ زار کو دکھانے کی ایک مخلصانہ کوشش کی ہے، بھلے ہی یہ کسی پر ناگوار گزرے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس فلم کے لیے 700 سے زائد کشمیری پنڈتوں کے انٹرویوز لیےگیے تاکہ 1990میں اور اس کے بعد کیا ہوا اس کی درست معلومات حاصل کرکے حقیقت کو پردے پر لایا جاسکے۔
انٹرنیشنل فلم فیسٹول آف انڈیا کی اختتامی تقریب سے خطاب کے دوراں اسرائیلی فلمساز اور جیوری کے سربراہ نادو لیپڈ نے کہا "'دی کشمیر فائلز'کو دیکھ کر لگا کہ یہ ایک پروپیگنڈا ہے جس کی اس جیسے معتبر فلمی میلے میں مقابلے کے لیے پیش کرنا نامناسب ہے۔ میں اس اسٹیج پر اطمینان و سکون کے ساتھ آپ کے ساتھ اپنےان خیالات کا برملا اظہار کررہا ہوں۔"
دہشت گردوں کے بیانیے کی حمایت کرنے کا جوابی الزام
نادو لیپڈ کے ان ریمارکس پر مبنی ویڈیو بھارت میں وائرل ہوگئی اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ایک وسیع حلقے نے انہیں نکتہ چینی کا ہدف بنایا۔
خود وویک اگنی ہوتری نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ 'دی کشمیر فائلز 'کو ایک پروپیگنڈا اور واہیات فلم قرار دیا جانا اُن کے لیے کوئی نہیں بات نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی باتیں اُن کے بقول دہشت گرد تنظیمیں اور بھارت کےٹکڑے ٹکڑے کرنے والے لوگ ہمیشہ سے ہی بولتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا "لیکن میرے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے بھارت کے اسٹیج پر منعقدہ تقریب کے دوران کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے والے دہشت گردوں کے بیانیے کی حمایت کی گئی ہے اور اس بات کو لے کر بھارت ہی میں رہنے والے کئی لوگوں نے اس کا بھارت کے خلاف استعمال کیا ہے۔ "
'فلم کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا فیصلہ کوئی سفارت کار نہیں کرسکتا'
انگریزی روزنامہ 'دی ہندوستان ٹائمز'کے پولیٹیکل ایڈیٹر اور تجزیہ کار ونود شرما نے اسرائیلی سفیر ناؤر گیلون کے ردِ عمل اور اپنے ہم وطن نادو لیپڈ پر کی گئی اس شدید نکتہ چینی کو غیرمعمولی اور سفارتی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ قرار دیا۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ونود شرما نے کہا "یہ فن بمقابلہ سیاست کا معاملہ لگتا ہے۔ جب کسی فلم کے معیار اور قدر و قیمت کو جانچنے کی بات آتی ہے تو اُن سرکردہ اور منجھے ہوئے فلمسازوں اور ناقدین کی صلاحیت پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے جن پر جیوری مشتمل ہے ۔
اُن کے بقول اسرائیلی سفیر کےجواب کا محور و مرکز اُن کے ملک کے بھارت کےساتھ تعلقات ہیں ۔وہ صورتِ حال پر سفارتی انداز سے قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں ایک سفیر کی حیثیت سے اُن سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔"
ونود شرما نے مزید کہا "نادو لیپڈ نے 'دی کشمیر فائلز' کی ضرور نکتہ چینی کی ہے اور جب کسی فلم کے معیارکو جانچنا ہو تو فلم بنانے والوں کی رائےزیادہ مقدم ہے کسی سفارت کار کی نہیں۔" انہوں نے کہا کہ نادو لیپڈ نے جو کچھ کہا ہے کسی کوا سے بھارتی سنیما یا بھارت کی توہین نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک فلم اور اس کے بنانے والے پر تنقید ہے۔