عیدالاضحیٰ میں چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں اور ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی گہما گہمی بڑھ رہی ہے ۔ ایک روز قبل ہونے والی بوندا باندی سے جہاں شہر میں موسم خوش گوار ہو گیا ہے وہاں قربانی کے جانوروں کی قیمتوں سے پریشان لوگوں کا مویشی منڈی میں رش بھی بڑھ گیا ہے ۔ کیوں کہ اپنی طے کردہ قیمت سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹنے والے بیو پاری محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیش گوئی کے بعد اپنے جانوروں کو بیماری کے ڈر سے اب کم قیمت پر فروخت کرنے پرکسی حد تک تیار ہو ہی گئے ہیں۔
منڈی کے منتظمین میں سے ایک منتظم مساحب نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کراچی میں محکمہ موسمیات کی جانب سے بدھ اور جمعرات کو بارش کی پش گوئی کے بعد سے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں دو روز کے دوران بیس فیصد تک کمی آگئی ہے اور اگر تیز بارش ہوگئی تو یہ قیمتیں مزید گر جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ بیوپاریوں کے لیے یہ خبر کسی طور بھی اچھی نہیں لیکن کراچی والوں کے لیے قربانی کی خریداری کا یہ اچھا موقع ہے ”جب کہ بیوپاریوں کو بارش کے بعد جانوروں میں بیماریوں کا ڈر ہے کیوں کہ اس کے بعد لوگ بیمار جانور خریدنے سے گریز کریں گے۔ اسی لیے بیو پاری کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے کم نفع کو ترجیح دے رہے ہیں۔“
کراچی میں بارشیں یہاں لوگوں کے لیے ہمیشہ زحمت ہی بنی ہیں لیکن اب کی مرتبہ یہ بار بیوپاریوں کے حصہ میں آیا ہے جب کہ کراچی کے شہری موسم کی تبدیلی کے ساتھ قیمتیں گرنے کے لیے بوندا باندی کے بعدمزید بارانِ رحمت کے منتظر ہیں۔
حارث بٹ نے منگل کو 63 ہزار میں بچھڑا خریدا ہے ۔وہ طارق روڈ کے رہائشی ہیں اور کہتے ہیں ” جو جانور میں نے لیا ہے اس لحاظ سے یہ قیمت بہت مناسب ہے ورنہ دوسرے حالات میں یہ مجھے پچاسی ہزار سے کم کانہ ملتا۔اب اگر بارش ہوگئی تو میں مزید دوہزار خرچ کرکے اسے محفوظ ٹھکانے پر رکھ لوں گا ۔“ وہ کہتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر بارش ہونا یقینًا جانوروں کے لیے خطرہ ہے لیکن جس طرح سے قیمتیں بڑھادی گئی ہیں اچھے اچھے لوگ منڈی سے خالی ہاتھ واپس آرہے ہیں ۔” ہم جانوروں کو خریدنے کے بعد محفوظ جگہ پر تو رکھ سکتے ہیں لیکن ساٹھ ہزار میں اچھا جانور نہیں خرید سکتے۔“
اگرچہ انتظامیہ قیمتوں میں کمی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس کے برعکس کئی دوسرے خریداریہ شکایت بھی کرتے نظر آئے کہ جانوروں کی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑااور انھیں ابھی بھی جانور خریدنے میں دشواری ہو رہی ہے ۔
سپر ہائی پر جانوروں کی قربانی کے لیے قائم منڈی نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیاء کی بھی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔ جہاں ہر سال بہت بڑی تعداد میں ملک کے مختلف علاقوں سے جانور فروخت کے لیے کراچی لائے جاتے ہیں۔ اس بارایک گائے ، بیل اور اونٹ کی منڈی میں داخلہ فیس آٹھ سو روپے رکھی گئی ہے جبکہ فی بکرا یہ فیس پانچ سو روپے ہے۔ زیادہ تر جانور یہاں پنجاب با لخصوص رحیم یار خان سے لائے جاتے ہیں۔ اگر چہ منڈی میں ان لوگوں کے لیے بنیادی سہولیات تو میسر ہیں مگر بارش کے اثرات سے جانوروں کو محفوظ رکھنا یہاں ممکن نہیں۔
منتظمین نے بتایا کہ تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار جانور منڈی لائے جاچکے ہیں اور انھیں توقع ہے کہ یہ تعداد دو لاکھ تک پہنچے گی۔ سپر ہائی وے پر جانوروں کی اس منڈی میں منتظمین کے بقول جانوروں کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ کیٹل فارم اونرز کے لاکھوں میں فروخت ہونے والے بڑے اور بھاری جسامت کے جانور بھی ہیں جن کی قیمت پانچ چھا لاکھ سے شروع ہوتی ہیں ۔لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر شخص چاہے وہ ٹینٹ میں ہو یا ٹینٹ سے باہر، اپنے جانور کی صحیح قیمت وصول کرتا ہے۔ کوئی انھیں گھاس کھلاتا ہے تو کوئی مکھن۔ اس لیے یہاں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار متعین نہیں کیا جا سکتا۔
ایک وقت تھا جب ہر شخص علیحدہ قربانی کرتا تھا لیکن سال بہ سال بڑھتی مہنگائی نے اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ کردیاہے ۔ مہنگائی پر تو یہاں کسی کا کنٹرول نہیں لیکن اب شاید موسم کی تبدیلی ہی کراچی والوں کی مشکل کسی حد تک آسان کردے۔