کراچی میں انسداد پولیو ٹیم پر ایک اسکول انتظامیہ کا حملہ

البدر ہائر سیکنڈری اسکول، کراچی

کراچی میں انسداد پولیو کے لئے خدمات انجام دینے والے رضاکار تمام سیکیورٹی اقدامات کے باوجود’ غیر محفوظ‘ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ناظم آباد کراچی میں پیش آنے والا وہ واقعہ ہے جس میں’ نامعلوم افراد ‘نے نہیں بلکہ مبینہ طور پر خود ایک نجی اسکول انتظامیہ نے چار افراد پر مشتمل انسداد پولیو کے رضاکاروں کی ٹیم پر حملہ کردیا ۔

واقعے میں اسسٹنٹ کمشنر شیخ رفیق کی سرکاری گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا گیا جس کے بعد ایس ایس پی سینٹرل عرفان بلوچ کی نگرانی میں اسکول کو سیل کردیا گیا جبکہ ایک ملزم کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

عرفان بلوچ نے بتایا کہ اسکول ناظم آباد نمبر چار میں واقع ہے جہاں تین خواتین اسماء، شازیہ، راحیلہ مسرور اور ایک مرد رضا کار رئیس فرخ پر مشتمل پولیو ٹیم بچوں کو انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پلانے پہنچی تو مبینہ طور پر اسکول انتظامیہ نے انکار کر دیا۔ انکار کے باوجود ٹیم نے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کی تو دونوں جانب سے بحث مباحثہ ہونے لگا۔

اس دوران اسسٹنٹ کمشنر شیخ رفیق بھی وہاں پہنچ گئے لیکن اسکول انتظامیہ نے ان کی بھی نہیں سنی جبکہ کچھ لوگوں نے ان کی سرکاری گاڑی میں توڑ پھوڑبھی کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ معاملہ اتنا بڑھا کہ پولیس بلانا پڑی ۔

پولیس نے سرکاری کام میں مداخلت، عملے پر حملہ اور اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ناظم آباد تھانے میں مقدمہ نمبر48/18 زیر دفعہ147-149-186-427-337/A درج کرلیا جبکہ دوسری جانب متعلقہ محکمے نے نوٹس لیتے ہو ئے مذکورہ اسکول سیل کردیا۔

آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی سینٹرل سے فوری طور پر واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وائس آف امریکہ کو علاقہ مکینوں نے بتا یا کہ گذشتہ سال بھی اس اسکول میں اسی نوعیت کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ اسکول کا نام البدر ہائر سیکنڈری اسکول ہے جبکہ اس علاقے میں متوسط طبقے کے افراد رہتے ہیں لیکن اسکو ل کے ارد گرد ملک کے بالائی علاقوں خاص کر پشتو بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔

یہ افراد انسداد پولیو کے قطرے پلائے جانے کے خلاف ہیں۔ ان قطروں سے متعلق ملک بھر میں مختلف افواہیں بھی پھیلتی رہی ہیں۔ افواہوں میں یہ تک کہا جاتا رہا ہے کہ ان قطروں کو انسداد پولیو کے لئے نہیں بلکہ’ فیملی پلاننگ ‘ یا’نسل کو محدود‘ رکھنے کے لئے پلایا جاتا ہے جو گہری سازش ہے۔

وی او اے کے نمائندے نے جب علاقہ مکینوں سے اس موضوع پر بات کرنا چاہی تو بیشتر افراد نے برا منایا اور افواہوں کو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق’ سچ‘ اور’ سازش ‘قرار دیا۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی ہی نہیں پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں اب تک درجنوں پولیو رضاکاروں پر حملہ کیا جا چکا ہے جبکہ ان میں سے بعض کو تو اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پولیو رضاکار فائرنگ اور بم دھماکوں کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں جبکہ خواتین ہیلتھ ورکرز بھی اس حملوں کی زد میں آ چکی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کے مرض پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیمیں اور عالمی امدادی ادارے پاکستان کو اس مرض سے نجات کے لئے اب تک کثیر فنڈز خرچ کر چکی ہیں لیکن محض افواہوں پر یقین کرنے کے سبب مرض پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

ان دنوں بھی کراچی میں رواں سال کی دوسری انسداد پولیو مہم جاری ہے جس میں 12ہزار ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جن کا بنیادی کام 23لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا ہے ۔ انہی رضاکاروں میں سے ایک ٹیم نے مذکورہ نجی اسکول کا دورہ کیا تھا کہ اسی دوران یہ واقعہ پیش آ گیا۔

جہاں تک رضاکاروں کی سیکیورٹی کا سوال ہے، ٹیموں کو پولیس اور کمانڈوز کا تعاون حاصل ہوتا ہے لیکن اچانک دھماکوں یا فائرنگ کے واقعات اس سیکیورٹی کی موجودگی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ کراچی میں ہی اس قسم کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔