محکمہ موسمیات اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ کراچی میں پچھلے سال کی طرح اس بار بھی مئی کے آخر یا جون کے شروع میں گرمی کی سخت لہر آئے گی۔ سخت گرمی کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، زیرِ نظر ویڈیو رپورٹ میں ملا حظہ کیجیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کراچی میں اب کی بار فروری کے مہینے سے ہی سورج نے تیزی دکھانا شروع کردی ہے اور ان دنوں یہ حال ہے کہ دوسرا پہر شروع ہوتے ہیں لوگ سائے دار جگہیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں میں بے موسم بارشوں کی لڑی لگی ہوئی ہے اور کراچی ہے کہ ماہرین نے ابھی سے خبردار کردیا ہے کہ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں ایک مرتبہ پھر ویسی ہی ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر آنے کا امکان ہے جیسے گزشتہ سال 15جون کو آئی تھی اور چار پانچ دن میں ہی 1200سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
پچھلے سال کی ان تباہ کاریوں سے سبق لیتے ہوئے اس بار تمام حکومتی ادارے پہلے سے الرٹ ہیں اور انہوں نے عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہی کے لئے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ ایسے ہی اداروں میں سے ایک ’ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ‘ بھی ہے جس نے ممکنہ طور پر آئندہ مہینوں میں پڑنے والی گرمی کی لہر اور اس سے بچنے کے لیے اختیار کیے جانے والے اقدامات سے آگاہی کے لیے کراچی میں ایک سیمینار منعقد کیا جس کا عنوان تھا "ہیٹ ویو مینجمنٹ، اے شیئرڈ رسپانسی بلیٹی۔“
سیمینار سے مختلف ماہرین موسمیات کے ساتھ ساتھ وزیر ماحولیات سندھ سکندر میندھرو نے بھی خصوصی خطاب کیا۔ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر اور چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید نے متنبہ کیا کہ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں کراچی کا موسم ایک مرتبہ پھر آگ برساسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پچھلے سال نہ تو اداروں کے درمیان ہم آہنگی تھی اور نہ ہی عوام میں آگاہی اس لیے بھی جانی نقصان زیادہ ہوا تاہم اس بار قبل از وقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو نقصان کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔
سیمینار میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈاکٹر سیمی جمالی نے بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال نہ تو کوئی ادارہ ایسا تھا جو منسلکہ اداروں کی کمانڈ کرسکتا اور نہ ہی کوئی کنٹرول سسٹم تھا، رہی سہی کثر اداروں کے عدم تعاون نے پوری کردی۔
ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ شہر میں گرمی کی لہر سے زیادہ نقصان بجلی کی فراہمی بند ہوجانے یا لوڈ شیڈنگ سے ہوا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر بتانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے سیمینار کے شرکا کو یہ بتا کر حیرت زدہ کردیا کہ پچھلے برس شدید گرمی کے چار پانچ روز کے دوران علاج کی غرض سے 10 ہزار سے زائد مثاثرہ افراد کو جناح اسپتال لایا گیا جن میں سے 229 متاثرہ افراد کو طبی امداد کے باوجود بچایا نہیں جاسکا۔
انہوں نے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گرمی سے متاثرہ شخص کو زیادہ سے زیادہ پانی اور جوس پینے چاہئیں۔ ہلکے رنگ کے ڈھیلے کپڑے پہنیں، گوشت کھانے سے پرہیز کریں جبکہ تازہ سبزیاں اور موسمی پھل کا زیادہ سے زیادہ استعمال جاری رکھیں۔
ماہرین نے ہیٹ ویو سے متاثرہ شخص میں مرض کی علامت کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس مرض میں سردرد ہوتا ہے، شدید پیاس لگتی ہے، الٹی اور متلی ہوتی ہے، جلد سرخ، گرم اور خشک ہوجاتی ہے۔ کمزروی اور پٹھوں میں کھنچاوٴ محسوس ہوتا ہے۔ اچانک تیز بخار آتا ہے یہاں تک کہ مریض بسا اوقات بے ہوش بھی ہوجاتا ہے۔
سیمینار میں شریک ماہرین میں ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل، کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ، ڈاکٹر جمیل احمد صدیقی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول اسپتال کراچی، ڈاکٹر اسد آفریدی اسسٹنٹ پروفیسر آغا خان یونیورسٹی اور دیگر شامل تھے۔
ہیٹ ویو سے متعلق وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ماحولیات سندھ سکندر میندھرو اور دیگر ماہرین نے مزید کیا کہا، یہ رپورٹ سے منسلک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے: