اس پرانے علاقے کی قدیم مگر خوبصورت عمارت برطانوی راج کے دور میں تعمیر کی گئی تھیں، جو قیام پاکستان سے قبل کے زمانے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ عمارتیں تقریبا 150 سال پرانی ہیں
کراچی —
کراچی کا اولڈ سٹی ایریا اپنی پرانی عمارتوں کے باعث شہر کے قدیم علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔
شہر کا مرکز کہلانے والے، ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سےمتصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی بنی ہوئی ہیں، جس کے باعث اسے اولڈ ایریا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس پرانے علاقے کی قدیم مگر خوبصورت عمارت برطانوی راج کے دور میں تعمیر کی گئی تھیں، جو قیام پاکستان سے قبل کے زمانے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ عمارتیں تقریبا 150 سال پرانی ہیں۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل قائم کی گئی یہ عمارتیں کراچی میں آج بھی موجود ہیں۔ اگر ان بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں پر غور کریں تو پُرکشش بناوٹ اور نقش و نگار کے باعث، یہ آج بھی اپنی اہمیت کی روداد سنا رہی ہیں۔ مگر، ان کی بحالی کا کام کرنے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں فن تعمیر کے شعبے سے وابستہ مشہور فن تعمیر کی ماہر، یاسمین لاری نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں، بتایا کہ ’کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کی قدیم عمارتوں کو دیکھا جائے تو شہر کی اصل خوبصورتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُس دور میں یہ عمارتیں اپنی بناوٹ کے اعتبار سے صحیح حالت میں کافی خوبصورت معلوم ہوتی ہوں گی‘۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ عمارتیں کسی ایک برادری کے مزدوروں نے نیں بنائیں۔ کراچی کے پرانے دور میں یہ عمارتیں پارسیوں، ہندوؤں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں لوگوں کا 'لائف اسٹائل' اور رہنے کا طور طریقہ کیسا تھا۔
انھوں نے کہا کہ نئے پراجیکٹس کے نام پر پرانی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے۔ اگر نجی ملکیت والی خوبصورت عمارتوں کی حالت سدھار کر اس کی مرمت کرکے دوبارہ پرانے طرز کی عمارت سازی کو ہی فروغ دیا جائے، اور ان پر رنگ و روغن کر دیا جائے، تو کوئی شک نہیں کہ یہ عمارتیں شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیں گی۔‘
کراچی کی ’این اِی ڈی‘ یونیورسٹی میں آرکیٹکٹ مضمون میں تدریس سے وابستہ، پروفیسر فریدہ غفار کا کہنا ہے کہ ’پرانی عمارتوں میں زیادہ تر نجی ملکیت کی عمارتیں ہیں۔ جس مالک نے بلڈنگ کی ملکیت لی وہ زیادہ تر خود بھی ان بلڈنگوں میں رہائش نہیں رکھتے۔ جن میں کچھ عمارتیں کرائے پر چڑھی ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں کی ملکیت کے الگ الگ مسائل ہیں جس کے باعث ان عمارتوں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بندر روڈ یعنی ایم اے جناح سے لائٹ ہاوٴس تک زیادہ تر آفسز اور پرانی عمارتیں ہیں؛ جبکہ موجودہ دور میں نئے پراجیکٹس بن رہے ہیں، جس سے ان عمارتوں کے کچھ قوانین بھی لاگو ہیں۔ جسمیں، مارکیٹ کی اہمیت کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ کونسی پرانی عمارت کو گرا کر اسکی جگہ نئی عمارت تعمیر کیجائے۔ دوسری جانب، نئے کاروباری مراکز قائم کرنے کیلئے بھی ایسا دیکھنےمیں آرہا ہے؛ جس سے شہر کا ورثہ سمجھےجانے والی یہ عمارتیں اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں‘۔
عمارتوں کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ ’دیکھا جائے تو یہ پتھر کی عمارتیں ہیں۔ اس طرح کی پتھر کی عمارتیں بنانا اب ممکن نہیں۔ نہی اب ویسی عمارتیں بنانےوالے لوگ موجود ہیں‘۔
کراچی میں برطانوی اور برصغیر دور ہندوستان سے آکر یہاں بستے چلے گئے پھر جسکے حصے میں جو مکان یا عمارت آئی وہ وہیں بستا چلا گیا
ان عمارتوں میں زیادہ تر نجی ملکیت میں ہیں، جس میں مختلف اداروں کے دفاتر ہیں، جب کہ کچھ عمارتوں میں اب بھی کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ چند عمارتوں کی خستہ حالی کے باعث انھیں مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے، مگر اہمیت کے اعتبار سے دیکھاجائے تو یہ کراچی کے لئے قدیم ورثے سے کم نہیں۔
شہر کا مرکز کہلانے والے، ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سےمتصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی بنی ہوئی ہیں، جس کے باعث اسے اولڈ ایریا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس پرانے علاقے کی قدیم مگر خوبصورت عمارت برطانوی راج کے دور میں تعمیر کی گئی تھیں، جو قیام پاکستان سے قبل کے زمانے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ عمارتیں تقریبا 150 سال پرانی ہیں۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل قائم کی گئی یہ عمارتیں کراچی میں آج بھی موجود ہیں۔ اگر ان بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں پر غور کریں تو پُرکشش بناوٹ اور نقش و نگار کے باعث، یہ آج بھی اپنی اہمیت کی روداد سنا رہی ہیں۔ مگر، ان کی بحالی کا کام کرنے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں فن تعمیر کے شعبے سے وابستہ مشہور فن تعمیر کی ماہر، یاسمین لاری نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں، بتایا کہ ’کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کی قدیم عمارتوں کو دیکھا جائے تو شہر کی اصل خوبصورتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُس دور میں یہ عمارتیں اپنی بناوٹ کے اعتبار سے صحیح حالت میں کافی خوبصورت معلوم ہوتی ہوں گی‘۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ عمارتیں کسی ایک برادری کے مزدوروں نے نیں بنائیں۔ کراچی کے پرانے دور میں یہ عمارتیں پارسیوں، ہندوؤں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں لوگوں کا 'لائف اسٹائل' اور رہنے کا طور طریقہ کیسا تھا۔
انھوں نے کہا کہ نئے پراجیکٹس کے نام پر پرانی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے۔ اگر نجی ملکیت والی خوبصورت عمارتوں کی حالت سدھار کر اس کی مرمت کرکے دوبارہ پرانے طرز کی عمارت سازی کو ہی فروغ دیا جائے، اور ان پر رنگ و روغن کر دیا جائے، تو کوئی شک نہیں کہ یہ عمارتیں شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیں گی۔‘
کراچی کی ’این اِی ڈی‘ یونیورسٹی میں آرکیٹکٹ مضمون میں تدریس سے وابستہ، پروفیسر فریدہ غفار کا کہنا ہے کہ ’پرانی عمارتوں میں زیادہ تر نجی ملکیت کی عمارتیں ہیں۔ جس مالک نے بلڈنگ کی ملکیت لی وہ زیادہ تر خود بھی ان بلڈنگوں میں رہائش نہیں رکھتے۔ جن میں کچھ عمارتیں کرائے پر چڑھی ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں کی ملکیت کے الگ الگ مسائل ہیں جس کے باعث ان عمارتوں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بندر روڈ یعنی ایم اے جناح سے لائٹ ہاوٴس تک زیادہ تر آفسز اور پرانی عمارتیں ہیں؛ جبکہ موجودہ دور میں نئے پراجیکٹس بن رہے ہیں، جس سے ان عمارتوں کے کچھ قوانین بھی لاگو ہیں۔ جسمیں، مارکیٹ کی اہمیت کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ کونسی پرانی عمارت کو گرا کر اسکی جگہ نئی عمارت تعمیر کیجائے۔ دوسری جانب، نئے کاروباری مراکز قائم کرنے کیلئے بھی ایسا دیکھنےمیں آرہا ہے؛ جس سے شہر کا ورثہ سمجھےجانے والی یہ عمارتیں اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں‘۔
عمارتوں کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ ’دیکھا جائے تو یہ پتھر کی عمارتیں ہیں۔ اس طرح کی پتھر کی عمارتیں بنانا اب ممکن نہیں۔ نہی اب ویسی عمارتیں بنانےوالے لوگ موجود ہیں‘۔
کراچی میں برطانوی اور برصغیر دور ہندوستان سے آکر یہاں بستے چلے گئے پھر جسکے حصے میں جو مکان یا عمارت آئی وہ وہیں بستا چلا گیا
ان عمارتوں میں زیادہ تر نجی ملکیت میں ہیں، جس میں مختلف اداروں کے دفاتر ہیں، جب کہ کچھ عمارتوں میں اب بھی کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ چند عمارتوں کی خستہ حالی کے باعث انھیں مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے، مگر اہمیت کے اعتبار سے دیکھاجائے تو یہ کراچی کے لئے قدیم ورثے سے کم نہیں۔