کراچی کے ساحل ’سی ویو‘ پر ڈوبنے والوں کی لاشیں تلاش کرنے کا عمل دوسرے دن بھی جاری رہا، جبکہ مرنے والوں کی تعداد 25تک جا پہنچی ہے۔
جمعرات کی شام پولیس نے ساحل تک جانے والے تمام راستوں کو سیل کردیا اور دفعہ 144 پر بھی سختی سے عمل درآمد کرانا شروع کر دیا۔
اندھیرے کے سبب لاشیں تلاش کرنے کا عمل روک دیا گیا، جبکہ جمعہ کی صبح دوبارہ آپریشن شروع ہوگا۔ آپریشن میں بحریہ کے سی کنگ ہیلی کاپٹروں سے مدد لی جارہی ہے۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ ہر سال جون سے اگست تک چلنے والے مون سون سیزن میں کھلے سمندر میں نہانے پر پابندی ہوتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا اور جون سے ہی دفعہ 144 سی آر پی سی نافذ ہے۔ لیکن، لوگوں کو کھلے سمندر میں نہانے سے روکنا مشکل ہے کیوں کہ کراچی کا ساحل ڈیڑھ کلومیٹر سے بھی زیادہ طویل ہے۔۔پھر اس تک پہنچنے کے لئے ایک دو نہیں درجنوں راستے ہیں۔ لوگ پابندی کے باوجود چور راستے تک استعمال کرنے لگتے ہیں‘۔
جمعرات کی شام پولیس اور دیگر سیکورٹی حکام نے کراچی کے پورے ساحل کو خالی کرا لیا، جبکہ ساحل تک پہنچنے والے لوگوں پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ اس لاٹھی چارج میں کچھ مرنے والوں کے لواحقین بھی زخمی ہوگئے۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں بدھ سے ہی وہاں جمع ہیں۔ جن ورثا کو ان کے عزیز و اقارب کی لاشیں مل گئی ہیں انہیں قانونی کارروائی کے بعد تدفین کی اجازت دے دی گئی۔
جمعرات کو دن بھر جناح اسپتال میں بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ مرنے والوں کی لاشیں یہیں منتقل کی گئیں اور یہیں سے لواحقین کے سپرد کی جاتی رہیں۔
سرکاری خبررساں ادارے، اے پی پی کا کہنا ہے کہ جمعرات کی رات تک 25 لاشیں برآمد کی گئیں جبکہ کچھ افراد ابھی لاپتہ ہیں جبکہ کچھ لاشیں ایسی بھی ہیں جن کی شناخت نہیں ہوسکی ۔ 24گھنٹے سے زیادہ وقت تک پانی میں رہنے کے سبب لاشیں خراب ہوگئی ہیں اور ان سے تعفن اٹھ رہا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے، اے ایف پی کا کہنا ہے کہ حکام کو ایک لاش ہاکس بے سے بھی برآمد ہوئی ہے جبکہ نیوی کے غوطہ خوروں نے بھی جمعرات کو دن بھر لاشیں تلاش کرنے کا عمل جاری رکھا۔
بتیس سالہ ایک شخص ، فیض الرحمٰن نے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کہا کہ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی اپنے دو دوستوں کے ساتھ سی ویو پر پکنک منانے آئے تھے۔ وہ دونوں کنارے کے قریب، جبکہ اس کے دوست کنارے سے کچھ آگے نہا رہے تھے کہ اچانک ایک بڑی لہر آئی جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی سے بڑی ہوتی چلی گئی۔ ہم لوگ اسے دیکھ کر واپسی کی طرف بھاگے۔ لیکن، ہمارے دوستوں کو واپسی کا بھی موقع نہیں ملا اور لہر انہیں اپنے ساتھ ہی بہا کر لے گئی۔ وہ دونوں اب تک لاپتہ ہیں۔
سرچ آپریشن میں فلاحی ادارے، ایدھی ٹرسٹ اور چھیپا کے رضاکار بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق جس وقت خطرناک اور کئی فٹ بلند لہر کنارے تک آئی تھی وہاں ایک کار بھی کھڑی تھی جسے لہر اپنے ساتھ بہا کر گہرے سمندر میں لے گئی۔ جمعرات کو خصوصی کرین کی مدد سے کار کو پانی سے باہر نکالا گیا۔ کار ریت میں بری طرح دھنس گئی تھی اس لئے زیادہ آگے نہیں جاسکی۔
آئی جی سندھ کی ہدایات پر ہاکس بے کے ساحل کو جانے والے تمام راستے بھی بند کردیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اپنے علیحدہ علیحدہ پیغامات میں انہوں نے مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار اور مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کی ہے۔