"صرف ان کی لاپروائی سے میرے بچے کو اتنی تکلیف سے جانا پڑا۔ کیا پہلے یہ کام نہیں ہو سکتے تھے جو میرے بیٹے کی موت کے بعد کیے؟ آپ نے تو میرا کندھا مجھ سے چھین لیا۔" یہ الفاظ ہیں نارتھ ناظم آباد بلاک-ایل کی رہائشی مسز خدیجہ امجد کے جن کا 12 برس کا بیٹا احمد 30 جولائی کی دوپہر اپنے دوست کے ہمراہ سائیکل پر گھر سے نکلا تھا۔ گھر کے قریب ہی بجلی کے کھمبے سے لٹکی تار سے اس کی اور اس کے دوست کی ہلالت ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مسز امجد نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو بارش بہت پسند تھی۔ وہ ہر وقت موسم کی خبر رکھنے کے لیے ویب سائٹس دیکھا کرتا تھا جب کہ اکثر بتاتا رہتا تھا کہ پاکستان میں کہاں بارش ہو رہی ہے اور کہاں نہیں۔
انہیں لگتا تھا کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر میٹرو لوجسٹ بنے گا جس پر وہ اکثر اپنے بیٹے کو چھیڑا بھی کرتی تھیں۔
حادثے کے روز دوپہر میں بارش تھم جانے کے بعد ان کے پڑوس سے ایک بچہ ان کے گھر آیا جس نے احمد کو سائیکل پر علاقے کا چکر لگانے کا کہا۔
احمد نے تھوڑی ہی دیر میں واپس آنے کا بتایا اور سائیکل پر دونوں دوست روانہ ہو گئے لیکن جب آدھا گھنٹہ گزر گیا اور احمد واپس نہ آیا تو ان کی والدہ کو تشویش ہوئی۔جب انہوں نے باہر نکل کر خبر لی تو معلوم ہوا کہ قریب ہی اسکول کے پاس بجلی کے کھمبے سے گری ہوئی تار سے دو بچوں کو کرنٹ لگا ہے جنہیں ایمبولینس اسپتال لے جا چکی ہے۔ لیکن اس وقت تک خاصی دیر ہو چکی تھی۔
احمد کی موت کے بعد سے خدیجہ کے تینوں بچے سہم گئے ہیں۔ وہ اپنے بھائی کے یوں جانے اور اپنی والدہ کی بے بسی پر افسردہ دکھائی دیتے ہیں۔خدیجہ اپنے بیٹے کی تصاویر اور ویڈیوز اپنے موبائل پر دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کے-الیکٹرک نے وہ تار کھمبے سے بعد میں آ کر کاٹی جو ان کے بیٹے کی موت کا سبب بنی جب کہ علاقہ مکین اس سے قبل اس کی شکایات کر چکے تھے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ کام پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا؟ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ اسکول کے باہر لگا کھمبا ہے۔ کتنی معصوم جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
مسز خدیجہ کے بقول "بجلی کی محفوظ تقسیم کاری کے-الیکٹرک کی ذمہ داری ہے۔ یہ میرا حق ہے۔ میں بار بار اپنے حکمرانوں سے کہوں گی کہ اگر آپ سے مسائل حل نہیں ہوتے تو خدارا منصب چھوڑ دیجیے اور انہیں اس منصب پر آنے دیجیے جو کچھ کر پائیں۔"
وہ کہتی ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ سے ہوتا بھی نہیں اور آپ ہٹتے بھی نہیں۔ ہمیں پانی نہیں ملتا۔ گیس کے مسائل ہیں۔ ہم اپنا کچرا خود اٹھواتے ہیں۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں موت تو نہ دیں۔ اور کتنی ماؤں کی گودیں اجڑنی ہیں۔ کتنے بچے یتیم ہونے ہیں۔
خدیجہ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بے حس اور بے ضمیر لوگ ہیں۔ ان میں حوصلہ نہیں ہے کہ یہ ہم ماؤں کا سامنا کر سکیں۔ عمران خان کا ایک فون نہ آ سکا۔ عارف علوی اس شہر سے ہیں۔ انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔ ہم نے اس لیے تو انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ ان کے آتے ہی نظام بدل جائے گا۔ لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔
مسز خدیجہ کا مزید کہنا ہے کہ آج سے کئی برس قبل بھی بارشیں ہوتی تھیں تو لوگوں میں اتنا خوف نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت کے ای ایس سی تھی جو حکومتی تحویل میں تھی اس کی پکڑ تھی۔ لیکن کے-الیکٹرک کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کون اسے چلا رہا ہے۔ کس کے اس میں شیئر ہیں۔ ان کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔
انہوں نے اپنے ساتھ ان ماؤں کے لیے بھی انصاف کا مطالبہ کیا ہے جن کے بچے ان حادثات کی نذر ہوگئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کراچی اور مون سون
کراچی میں ہونے والی مون سون کی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں معمول سے کہیں زیادہ ہیں۔ مون سون کے پہلے اسپیل میں 165 ملی میٹر، جب کہ دوسرے اسپیل میں اب تک 200 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ ہو چکی ہیں۔
شہر بھر میں اربن فلڈ وارننگ اور رین ایمرجنسی نافذ ہیں۔ محکمہ موسمیات نے موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی پہلے ہی کر دی تھی۔ تاہم، ہمیشہ کی طرح بارش ہوتے ہی شہر کا نقشہ بدل گیا۔ جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا ہونے اور ندی نالوں کی بروقت صفائی نہ ہونے سے طغیانی نے ساری کسر پوری کر دی۔
اسی کے سبب بجلی کی غیر اعلانیہ بندش بھی ہوئی اور کئی شاہراہوں، گلیوں میں تاریں ٹوٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ بارش کے دوران کرنٹ لگ کر مرنے والوں میں بڑوں کے ساتھ کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ ان واقعات کا ذمہ دار عوام کے-الیکٹرک کو سمجھتی ہے۔
عید کے پہلے روز میئر کراچی وسیم اختر درخشان تھانے گئے جہاں ڈی ایچ اے میں کرنٹ لگ کر ہلاک ہونے والے تین نوجوانوں کے ورثا کے ہمراہ انہوں نے کے-الیکٹرک کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔
ایف آئی آر کے-الیکٹرک کے عارف نقوی، سی ای او مونس عبد اللہ، چیئرمین اکرام سہگل اور دیگر کے خلاف درج کی گئی۔ اس موقع پر مئیر کراچی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ورثاء کی اس سلسلے میں مدد کی۔ کرنٹ لگ کر ہلاک ہونے والے دیگر افراد کی ایف آئی آر بھی درج کروائی جائے تاکہ اس کی روشنی میں سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا جا سکے۔
'شہر میں لگا ہر کھمبا اور تار کے-الیکٹرک کی نہیں'
دوسری جانب حالیہ بارش میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کے-الیکٹرک کی ہیڈ آف کمیونیکیشنز نور افشاں کا کہنا تھا کہ شہر میں لگا ہر کھمبا اور تار کے الیکٹرک کی نہیں۔ یہ ٹیلی کمیونیکیشن، کیبل آپریٹر اور دیگر تاریں بھی ہیں۔ جو کوائل کی صورت میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں اور اس بد انتظامی کے سبب ہمارا بجلی کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق، کچھ حادثات گھروں میں کرنٹ لگنے کے سبب ہوئے۔ جو بڑی تعداد میں جانیں باہر کرنٹ کے سبب ضائع ہوئیں اس کی وجہ وہ غیر قانونی کنڈے ہیں جو بارش سے پہلے چلنے والی ہوا کے سبب گرے۔
انہوں نے بتایا کہ بارش کا پانی کھڑا ہوا اور پھر اس سے حادثات ہوئے۔
انہوں نے بارش میں کرنٹ لگ کر مرنے والوں کے لیے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے کی دلی ہمدردیاں ان تمام متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی ایک بڑی آبادی کنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہم یہ ختم کرتے ہیں اور وہ پھر سے لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح تیزی سے ہونے والی تعمیرات میں بھی بجلی کے کھمبے اور پی ایم ٹیز کو عمارتوں کے انتہائی قریب کر دیا گیا ہے جو کسی بھی ممکنہ حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
نور افشاں کا کہنا ہے کہ کے ای ایس سی ایک بہت پرانی کمپنی تھی۔ لیکن نئی مینجمنٹ 2009 میں آئی۔ ہمارا سفر اتنا طویل نہیں ہے۔ ہم نے اس مختصر عرصے میں دو ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔
کے-الیکٹرک نے شہر بھر کی کتنے فیصد تاریں تبدیل کی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 6500 کلومیٹر اسکوائر کے رقبے پر پھیلا شہر ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اسے راتوں رات نئی ٹیکنالوجی پر تبدیل نہیں کر سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اب تک 26 سے 27 ہزار میں سے 7500 سے زائد پی ایم ٹیز کو ایریا بنڈل کیبل پر تبدیل کر لیا ہے۔ اس سے یہ فرق آیا کہ 2009 سے پہلے کراچی کا 23 فی صد علاقہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنی تھا۔ لیکن، اب 70 فیصد علاقہ مستثنی ہے، جب کہ مستقبل میں نئے تعمیراتی منصوبوں میں ہم زیر زمین بجلی مہیا کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
بارشوں میں طویل لوڈ شیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں اور شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس پر کے-الیکٹرک کا موقف تھا کہ ہم خود احتیاط کے پیش نظر ایسے علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں جہاں ہمیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کنڈوں کے سبب حادثات زیادہ رونما ہو سکتے ہیں۔