کراچی میں پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ’اے آر وائی‘ نیوز کے دفتر پر مشتعل مظاہرین نے پیر کی شام دھاوا بولا جس کے نتیجے میںایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق مشتعل افراد صدر کے علاقے میں ’اے آر وائی نیوز‘ کے دفتر میں داخل ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران ایک شخص کی موت بھی واقع ہو گئی۔
’اے آر وائی‘ نیوز کے طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ اُن کے دفتر پر حملے میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین شامل ہیں تاہم ایم کیو ایم کی طرف سے فوری طور پر اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سے کوشش کے باوجود کوئی بھی رہنما اپنا موقف بیان کرنے کے لئے دستیاب نہیں ہوسکا البتہ اسی جماعت کے ایک رکن اور ٹی وی اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکنوں کی آڑ میں کسی تیسرے فریق نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن اگر واقعی اس میں ایم کیو ایم کے کارکن ملوث ہیں تو میں پوری قوم سے معافی کا طلب گار ہوں ۔ ‘‘
اس دوران ایم کیو ایم کے لندن آفس سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں سے بھی فوری طور پر کسی بھی قسم کے رد عمل کے اظہار سے اجتناب برتا گیا۔
واقعہ پیر کی شام پانچ بجےکے قریب پیش آیا۔ مقامی میڈیا اطلاعات میں بتایا جارہا ہے کہ کچھ مشتعل افراد اے آر وائی کے صدر میں واقع آفس میں جبری گھس گئے اور توڑ پھوڑ شروع کردی ۔ اس دوران اچانک فائرنگ بھی شروع ہوگئی۔
ادھر دیگر مشتعل افراد نے دفتر کے باہر کھڑی پولیس موبائل سمیت کئی گاڑیوں کو آگ لگادی۔پولیس کاکہنا ہے کہ اس دوران ایس ایچ او صدر پیر شبیر حیدر اور پولیس اہلکار قمرزمان بھی زخمی ہوگئے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے اور ٹی وی چینلز پر حملوں کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اورعام افراد خصوصاً صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن لوگوں نے حملہ کیا ان سے حساب لیا جائے گا۔ کسی کو امن وامان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شہر کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
ایم کیوایم کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر گذشتہ کئی روز سے متحدہ قومی موومنٹ کا بھوک ہڑتالی کیمپ قائم تھا جہاں ایم کیو ایم کے مرکزی قائدین اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جن سے متحدہ کےسربراہ الطاف حسین نے کیمپ کے شرکا سےٹیلیفونک خطاب کیا ۔ خطاب کے دوران کارکن جذباتی ہوگئے اور احتجاج کی اجازت مانگی۔
اس دوران کراچی پریس کلب اور اطراف میں مشتعل مظاہرین نے احتجاج شروع کردیا اور پریس کلب کے باہر مختلف چینلز کی ڈی ایس این جی وین پر پتھراؤ شروع کردیا جبکہ توڑ پھوڑ بھی کی ۔
مشتعل مظاہرین نے صدر کے علاقے میں بھی توڑ پھوڑ کی اور پریس کلب کے قریب واقع زینب مارکیٹ بندکرادی اور مدینہ مال میں داخل ہوگئے۔ اسی مال میں اے آر وائی نیوز کا دفتر بھی واقع ہے۔
ہنگامہ آرائی کے بعد اطراف کی سڑکوں پر شدید ٹریفک جام ہوگیا اورآرٹس کونس سے ٹاور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
پولیس اعلامیہ کے مطابق الطاف حسین کے خطاب کے دوران پندرہ سو سے دو ہزار کارکنوں نے پتھراؤ کیااور پولیس پر فائرنگ۔2افراد گولیاں لگنےسے زخمی ہوئے ۔
ایم کیو ایم کے کارکنوں نے پولیس اور اے آر وائی کی عمارت پر پتھرائو کیا، پتھراؤ اور فائرنگ سے زخمی ہونے والے چار افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر متعدد افراد کو گرفتار کرلیااور پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو اکھاڑ دیااور صورتحال کو کنٹرول کرلیا۔
Your browser doesn’t support HTML5