کراچی، 67 اہم سیاسی شخصیات کا انتخابی اکھاڑا

کراچی میں انتخابی سرگرمیاں (فائل فوٹو)

کراچی ملک کا واحد شہر ہوسکتا ہے جہاں سب سے زیادہ کانٹے کے مقابلے ہوں گے۔ جتنے بڑے بڑے سیاست دان اور نامور چہرے یہاں کے انتخابی دنگل میں اترے ہیں، کسی اور شہر میں شاید ہی ماضی میں کبھی اترے ہوں۔

پاکستان کے پارلیمانی انتخابات میں کراچی کی اہمیت جتنی اس بار ہے شاید تاریخ میں کبھی نہ رہی ہو۔ مستقبل میں وزیرِ اعظم بننے کے تین خواہش مند اور تین جماعتوں کے سربراہان - عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو - یہیں سے انتخابات لڑ رہے ہیں جبکہ کوئی بھی بڑی اور اہم سیاسی جماعت ایسی نہیں جس سے وابستہ بڑے ناموں نے اس بار کراچی کے انتخابی دنگل کا رخ نہ کیا ہو۔

ایم کیو ایم کے 60 سے زائد امیدوار
صرف ایم کیو ایم کی ہی بات کریں تو پارٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کے مطابق "ایم کیو ایم نے شہر بھر سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی 60 سے زائد نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔"

متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف رہنما

چونکہ ماضی میں کراچی کے انتخابات میں ایم کیو ایم سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آتی رہی ہے اور اس کا ووٹ بینک بھی پورے شہر میں سب سے بڑا تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے 60 نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدواروں کا کھڑا ہونا ازخود اہمیت کا حامل ہے۔

خاص کر کہ جب ان میں سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں اور پارٹی قیادت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ ان کا ووٹ بینک اب بھی برقرار ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ کراچی ملک کا واحد شہر ہوسکتا ہے جہاں سب سے زیادہ کانٹے کے مقابلے ہوں گے۔ جتنے بڑے بڑے سیاست دان اور نامور چہرے یہاں کے انتخابی دنگل میں اترے ہیں، کسی اور شہر میں شاید ہی ماضی میں کبھی اترے ہوں۔

اگلا وزیرِ اعظم کراچی سے منتخب ہوگا؟
زیرِ نظر رپورٹ میں شامل ناموں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ شہباز شریف شہر کے دو حلقوں این اے 249 بلدیہ ٹاؤن اور این اے 250 سائٹ انڈسٹریل ایریا و اورنگی ٹاؤن سے انتخابات لڑنے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔

ان کے بارے میں پہلے یہ اطلاعات تھیں کہ وہ کراچی سے انتخابات نہیں لڑیں گے لیکن مسلم لیگ ن سندھ کے رہنما اور سینیٹر سلیم ضیا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ پارٹی نے پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے اور اب شہباز شریف کراچی سے بھی انتخابات لڑیں گے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نے کراچی میں اب تک ایک بھی عوامی جلسہ نہیں کیا اور نہ ہی شہباز شریف ایک یا دو بار کے علاوہ کراچی آئے ہیں۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی پنجاب کے سابق وزیر رانا مشہودنے جمع کرائے تھے۔

پی ٹی آئی رہنما عمران خان اور عارف علوی

وزیرِ اعظم بننے کے دوسرے خواہش مند امیدوار پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں جنہوں نے این اے 243 سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گلشن اقبال، گلستانِ جوہر، مین یونیورسٹی روڈ، میٹروول تھری، بہادر آباد، شرف آباد، پرانی سبزی منڈی، شانتی نگر اور مجاہد کالونی جیسے علاقے اسی حلقے میں واقع ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں یہاں سے ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل کامیاب ہوئے تھے تاہم اس بار کے انتخابات میں وہ خود پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔

این اے 243 میں عمران خان کا مقابلہ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن سے ہوگا جو خاصے مضبوط امیدوار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف تھے۔ ان سے مقابلے کے لیے پاک سرزمین پارٹی نے مزمل قریشی کو میدان میں اتارا ہے جو نسبتاً غیر معروف نام ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری

تیسرے امیدوار بلاول بھٹو زرداری ہیں جو پیپلز پارٹی کے روایتی گڑھ لیاری سے مقابلے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو اور والد آصف علی زرداری بھی ماضی میں اس نشست سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ انتخابات جتنے کی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنما نعیم الرحمٰن

پرویز مشرف سے ۔۔۔ حافظ نعیم الرحمٰن تک
سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی سب سے اہم سمجھے جانے والے کراچی کے حلقے این اے 247 سے انتخابات لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن جمعرات کو آنے والے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وہ انتخابات کے لیے نااہل قرار پاگئے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اس حلقے میں ڈیفنس، کلفٹن، برنس روڈ، صدر، کراچی کینٹ، سول لائنز، کھارادر، لائٹ ہاؤس، کالا پل اور گورا قبرستان کے علاقے آتے ہیں۔

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال

اسے شہر کا سب سے اہم حلقہ اس لیے بھی قرار دیا جارہا ہے کہ نصف درجن سے زائد اہم اور بڑے نام اسی حلقے سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ ان میں پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم پاکستان پی آئی بی گروپ کے ڈاکٹر فاروق ستار، بہادرآباد گروپ کی نسرین جلیل، پی ٹی آئی کے عارف علوی، پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن اور سول سوسائٹی کے نہایت فعال کارکن جبران ناصر شامل ہیں۔