|
ایسا ہر روز نہیں ہوتا کہ ہائی اسکول کے معاشرتی علوم کا ایک ریٹائرڈ استاد امریکی سیاست میں ایک بلند مقام حاصل کر لے۔ لیکن منی سوٹا کے صاف گو گورنر ٹم والز کے ساتھ ایک ایسا ہی معاملہ ہے، جنہیں نائب صدر کاملہ ہیرس نے نومبر کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں نائب صدر کے عہدے کے لیے اپنے ساتھی کے طور پر منتخب کیا ہے۔
انہوں نے اس سے قبل ہیرس کے ری پبلکن حریف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدارت کے ان کے ساتھی جے ڈی وینس کو ’عجیب و غریب‘ شخصیات کے طور پر پیش کرتے ہوئے آئندہ حکمرانی کے لیے دونوں کو نااہل قرار دے کر ڈیموکریٹس کے حامیوں کی نظروں میں اپنے لیے مقام بنا لیا تھا۔
والز نے حال ہی میں کہا ہے کہ’ ٹرمپ اس وقت تک نہیں ہنستے جب تک وہ کسی پر ہنس نہ رہے ہوں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اپنی انتخابی ریلیوں میں ’ہنی بال لیکٹر‘ نامی فکشن فلم یا سمندر میں خود پر حملہ کرنے والی شارک کے متعلق عجیب و غریب کہانیاں سنانا پسند کرتے ہیں اور ان میں کسی بھی طرح سے انسانوں سے جڑنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں کانگریس مین کے طور پر اپنے 12 سال کے عرصے کے دوران وہ اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیادہ تر لبرل اور ترقی پسند حلقے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے پانچ سال سے زیادہ عرصے تک منی سوٹا کے گورنر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ امریکہ کی قومی سیاست کے منظر نامے پر بڑی حد تک ایک نامعلوم اور ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں آزمایا نہیں گیا۔
اگست کے این پی آر، پی بی ایس نیوز، ماریسٹ کی جانب سے کرایا جانے والے رائے عامہ کا سروے یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ تر امریکی اور ڈیموکریٹس، والز کے بارے میں نہ تو مثبت اور نہ ہی منفی رائے رکھتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر انہیں جانتے ہی نہیں ہیں۔
قومی سروے میں کیے گئے انٹرویوز کے مطابق ہر 10 میں سے تقریباً 7 بالغ اور رجسٹرڈ ووٹروں کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے والز کے بارے میں کبھی سنا تھا یا نہیں سنا تھا۔ ہر 10 میں سے 6 ڈیموکریٹس کی بھی یہی رائے تھی۔
سروے کے مطابق ان کے بارے میں کافی کچھ جاننے والے ڈیموکریٹس میں سے 31 فی صد کی رائے مثبت اور 7 فی صد کی غیر موافق تھی۔
والز کی عمر 60 سال ہے اور وہ ہیرس سے تقریباً چھ ماہ بڑے ہیں۔ تاہم امریکہ کے بہت سے سیاسی دانش وروں کا کہنا ہے کہ وہ ہیرس اور نائب صدر کے عہدے کے لیے باریش 40 سالہ ری پبلکن امیدوار وانس کے مقابلے میں کافی حد تک معمر دکھائی دیتے ہیں۔
والز کے پاس اپنے سر کے گنتی کے چند سرمئی بالوں والی ظاہری شکل و شہبات کے لیے یہ جواب موجود ہے کہ وہ 20 سال تک ایک ہائی اسکول کے لنچ روم کے نگران رہے ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ ’یقین کریں کہ یہ کام آپ کے سر پر بالوں کو ٹکنے نہیں دیتا‘۔
والز کا پس منظر ہیرس کے پس منظر سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ ہیرس نے 2020 میں جو بائیڈن کے ساتھ نائب صدر کی نامزدگی جیتنے اور امریکی سینیٹ کی نشست حاصل کرنے سے پہلے اپنے کریئر کا زیادہ تر حصہ امریکہ کی سب سے گنجان آباد اور ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ریاست کیلی فورنیا میں پراسیکیوٹر کے طور پر گزارا ہے۔
جب کہ والز امریکہ کی وسط مغربی زرعی ریاست نیبراسکا کے ایک چھوٹے سے دیہی قصبے میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ بعد ازاں وہ اپنی اہلیہ گوئن وہپل کے ساتھ ان کی آبائی ریاست منی سوٹا منتقل ہو گئے۔ ان کے دو بچے ہیں، 23 سالہ ہوپ اور 17 سالہ گس۔
والز نے 24 سال تک آرمی نیشنل گارڈ میں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے مینکاٹو ویسٹ ہائی اسکول میں پڑھایا اور اسکول کی فٹ بال ٹیم کی کوچنگ بھی کی۔ ان کی ٹیم نے ایک سال ریاستی چیمپئن شپ جیتی تھی۔
والز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابتدائی طور پر کانگریس کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہیں اور کچھ طلبہ کو، اس وقت کے ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کے 2004 میں اپنے عہدے کی دوسری مدت کی الیکشن ریلی میں شرکت سے اس بنا پر روک دیا تھا کہ منتطمین کو یہ علم ہو گیا تھا کہ وہ ڈیموکریٹ ہیں۔
گورنر والز کے عہدے کی دوسری مدت کے دوران 2023 میں ڈیموکریٹس نے منی سوٹا کی ریاستی مقننہ کے دونوں ایوانوں کا کنٹرول حاصل کر لیا اور قومی پارٹی کی ترقی پسند شاخ کی حمایت سے ایک لبرل پالیسی ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔
انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ جب آپ ری پبلکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کو منتخب کرتے ہیں تو آپ ایک واضح فرق دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کلاس رومز میں دس (بائیبل) احکامات کے (چارٹ آویزاں) نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا مفت ہے۔ والز ایک لوتھران ہیں جو امریکہ میں مرکزی دھارے میں شامل پروٹسٹنٹ فرقہ ہے۔ (16 ویں صدی کے ایک اصلاح پسند مسیحی راہب مارٹن لوتھر کے پیروکاروں کو لوتھران کہا جاتا ہے)
پچھلے ڈیڑھ کے دوران والز کی زیرِ قیادت منی سوٹا حکومت نے ریاست میں اسقاطِ حمل کے حق کو یقینی بنایا ہے اور دستاویزات نہ رکھنے والے تارکینِ وطن کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلحے کی منتقلی کے لیے پس منظر کی بڑے پیمانے پر جانچ پڑتال، فرحت و سکون کے حصول کے لیے چرس کو قانونی شکل دینے اور صنفی بنیاد پر صحت کی دیکھ بھال پر کام کیا ہے۔
والز نے روزگار کے حوالے سے ایک انتظامی حکم پر دستخط کیے ہیں جس کے ذریعے منی سوٹا ریاست کی 75 فی صد سرکاری ملازمتوں کے لیے کالج کی ڈگری کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کو ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے اور کئی دوسری ریاستیں بھی یہ اقدام کر چکی ہیں۔
ڈیموکریٹس نے ریاست میں کم آمدنی والے خاندانوں کے طلبہ کے لیے اسکولوں میں مفت کھانے اور مفت کالج ٹیوشن کے لیے بھی فنڈز فراہم کیے ہیں۔
جولائی کے آخر میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں والز سے پوچھا گیا تھا کہ ان کی ریاست نے جو لبرل پالیسیاں اختیار کی ہیں، کیا ان کے باعث وہ 5 نومبر کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران قدامت پسند سیاسی حملوں کا ہدف بن سکتے ہیں؟
والز کا کہنا تھا کہ کتنا ظلم ہے، بچوں کو کھانے کو مل رہا ہے۔ ان کا پیٹ بھرا جا رہا ہے تاکہ وہ پڑھنے اور سیکھنے کے لیے جا سکیں۔ خواتین اپنی صحت کی دیکھ بھال کے سلسلے میں اپنے فیصلے خود کر رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس کے لیے وہ مجھ پر کوئی لیبل لگانا چاہتے ہیں تو میں یہ لیبل (لبرل) بہت خوشی سے قبول کروں گا۔