جمعے کی رات کابل کے سفارتی علاقے میں بم دھماکہ ہوا اور گولیاں چلیں۔ پولیس کے مطابق، واقع میں کم از کم دو افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
ہنگامی صورت حال سے نمٹنے پر مامور اہل کاروں نے بتایا ہے کہ واقع مقامی وقت کے مطابق، 6 بچے صبح افغان دارلحکومت کے شیرپور کے مضافات میں ہوا۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ یہ حملہ گیسٹ ہاؤس پر کیا گیا، ’چونکہ یہ فوجی سرگرمیوں اور انٹیلی جنس کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا‘۔
ترجمان نے بتایا کہ ’ہم ایک طویل عرصے سے اِن حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھے، اور بالآخر آج ہم نے اس پر حملہ کیا۔ اس اہم ہدف پر ہمارے مجاہدین کے ایک بڑے گروہ نے دھاوا بولا ہے۔ اس کا آغاز تب ہوا جب ہمارے ایک مجاہد نے آتشیں مواد سے لدی ایک کار کو دھماکے سے اُڑا دیا، اور پھر باقی مجاہدین تنصیب کے اندر داخل ہوئے۔ اُس وقت عمارت میں غیر ملکیوں کی کافی تعداد موجود تھی‘۔
باغیوں کے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پائی۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان، صدیق صدیقی نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ دھماکہ کار بم پھٹنے سے ہوا۔ جس کے بعد، گولیوں کے تبادلے کی شدید آوازیں جاری رہیں۔ ادھر، اُس مقام کے قریب موجود ایک اخباری نمائندے نے بتایا ہے کہ پولیس نے کہا ہے کہ واقع میں کم از کم تین حملہ آور ملوث ہیں۔
ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ حملے کا ہدف ہسپانوی سفارت خانہ ہوسکتا ہے۔
لیکن، کچھ ہی دیر بعد، اسپین کے دفتر کے ترجمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ہسپانوی وزیر اعظم ماریانو رجوائے کے مطابق، یہ سفارت خانے پر حملہ نہیں بلکہ قریبی عمارات پر حملہ تھا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ دھماکوں کے نتیجے میں ایک ہسپانوی پولیس اہل کار ہلاک ہوا۔ اُنھوں نے یہ بات واضح کی کہ جب متعدد بم پھٹیں تو اس کے نتیجے میں نشانہ بننے والے ہدف کے علاوہ بھی اموات واقع ہوتی ہیں۔
ایک قریبی اسپتال نے، جسے اطالوی عطیات کی مدد سے چلایا جاتا ہے، اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ وہاں سات زخمی داخل کیے جا چکے ہیں۔