حکومتِ اسپین نے کہا ہے کہ افغان دارلحکومت کے سفارتی علاقے میں ہونے والا ہلاکت خیز حملہ، جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں دو ہسپانوی پولیس اہل کار بھی شامل تھے، 'اسپین پر حملہ تھا'۔
جمعے کے روز ہونے والا کار بم حملہ اور مسلح جھڑپوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ یہ جھڑپیں ہفتے کے روز تک جاری رہنے کے بعد اُس وقت ختم ہوئیں جب سلامتی پرمامور افواج نے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔
حملے میں کم از کم چار افغان پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔ یہ جھڑپیں کابل کے ہسپانوی سفارت خانے کے قریب ہوئیں۔ اس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ اطالوی عطیات سے چلنے والے ایک قریبی اسپتال نے بتایا ہے کہ وہاں پر کئی زخمیوں کا علاج کیا گیا۔
طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ گیسٹ ہائوس کو اِس وجہ سے نشانہ بنایا گیا، چونکہ، بقول اُن کے، اُسے فوجی کارروائیوں اور انٹیلی جنس کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
مجاہد کے الفاظ میں 'ایک مدت سے ہم اِس پر نظر رکھے ہوئے تھے اور بالآخر آج ہم نے اِس پر حملہ کیا۔ ہمارے مجاہدین کے ایک بڑے گروہ نے اس اہم ہدف پر حملہ کیا'۔
اُنھوں نے بتایا کہ حملے کے آغاز میں طالبان کے ایک ساتھی نے بارود لدی ایک کار کو دھماکے سے اُڑیا، جس کے بعد ہمارے دیگر ساتھی تنصیب میں داخل ہوئے۔ اُس وقت عمارت کے اندر متعدد غیر ملکی موجود تھے۔'
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد تین تھی۔
واشنگٹن میں، محکمہ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے کہا ہے کہ 'تشدد کی اِس کارروائی کے باوجود، امریکہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے تمام فریق کے درمیان مفاہمتی عمل کے لیے کام کیا جانا ضروری ہے'۔
کِربی نے کہا کہ 'کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کابل میں اِس طرح کی تشدد کی کارروائی ہو۔ اس سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ افغانستان ابھی تک ایک خطرناک جگہ ہے اور اس بات کی اشد ضرورت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ افغان قیادت والے مفاہمتی عمل کے سلسلے میں صدر (اشرف) غنی اور چیف اگزیکٹو افسر (عبداللہ) عبداللہ کی حمایت جاری رکھی جائے'۔
کابل میں جمعے کے روز ہونے والے اِس حملے سے قبل اِسی ہفتے جنوبی قندھار میں واقع ایئرپورٹ فوجی ہائوسنگ کمپلیکس پر حملہ کیا گیا، جہاں 27گھٹے تک قبضہ جاری رہا۔ کم از کم 10 طالبان نے، جو خودکش جیکٹس پہنے ہوئے تھے، کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا، جن میں 39 شہری شامل تھے۔