کابل میں لڑائی ختم، 19 حملہ آور ہلاک

حکام نے کہا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی ختم ہوگئی ہے۔

افغان حکام نے بتایا کہ طلوع آفتاب کے وقت سکیورٹی فورسز اور کابل کے مرکزی سفارتی علاقے میں ایک عمارت پر قابض عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

افغان وزارت داخلہ نے اطلاع دی ہے کہ 19 حملہ آور مارے گئے جب کہ 14 پولیس اہلکار اور نو شہری زخمی ہوئے۔ مغربی سفارتخانوں کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔ حکام کے بقول تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اتوار کو عسکریت پسندوں نے منظم انداز سے پارلیمنٹ، نیٹو کے تنصیب اور امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے سفارتخانوں والے علاقے میں حملے کیے۔ شدید فائرنگ اور راکٹ حملوں کے بعد دارالحکومت میں خودکش حملے بھی ہوئے۔

افغان سکیورٹی اہلکاروں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ گلیوں کا رخ کیا جب کہ شہری اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے اور پورے شہر میں خطرے کے سائرن بجنا شروع ہوگئے۔

عسکریت پسندوں نے تین مشرقی صوبوں میں بھی اتوار کو حملے کیے جسے وہ ’’موسم بہار کی لڑائی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

افغان صدر حامد کرزئی

افغان صدر حامد کرزئی نے پیر کو کابل میں جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ طالبان شدت پسندوں کے منظم حملوں کی سنجیدہ تحقیقات ہونی چاہیئں، کیوں کہ یہ افغان اور نیٹو انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن مسٹر کرزئی نے تشدد کی ان کارروئیوں کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے پر افغان سکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کا دفاع اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اُدھر افغان وزیرِ داخلہ بسم اللہ محمدی نے پیر کو کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کابل اور دوسرے شہروں میں ہونے والے حملوں میں مجموعی طور پر 36 شدت پسند، سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکار اور تین شہری بھی ہلاک ہوئے۔

اُنھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد سے ایک مبینہ خودکش بمبار کو گرفتار کیا ہے۔

’’اس نے اعتراف کیا ہے کہ اُس کی تربیت اور اسلحہ و گولہ بارود کی فراہمی ہماری (افغان) سرحدوں سے باہر سے ہوئی اور وہ حقانی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ ہم ان انکشافات کا جلد میڈیا کے ذریعے اعلان کریں گے۔‘‘

مشتبہ شخص نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن اس کا اشارہ بظاہر پاکستان کی طرف تھا جہاں شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک نے اپنی تربیت گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔

ان افغان الزامات نے ایک بار پھر امریکہ اور پاکستان کے درمیان گشیدگی میں اضافہ کے خدشات پیدا کر دیے ہیں کیوں کہ امریکی حکام طویل عرصے سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے اسلام آباد پر دباؤ ڈالتے آئے ہیں۔

اس کے علاوہ اس تنظیم کے جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں کو تواتر سے امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے، جن کی پاکستان سخت مخالفت کرتا آیا ہے۔

حال ہی میں پاکستانی پارلیمان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے نئے رہنما اصولوں کی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے جس میں سر فہرست مطالبہ ڈرون حملوں کی فوری بندش ہے۔

حنا ربانی کھر

مزید برآں پاکستان وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پیر کو اپنے افغان ہم منصب زلمے رسول سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے تازہ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں پر اظہار تعزیت کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ ہدف ہے۔