دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی 'کے ٹو' کو سر کرنے کی مہم ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد بیس کیمپ پر موجود تمام غیر ملکی کوہ پیما اسکردو روانہ ہو گئے ہیں۔
دسمبر کے وسط میں تقریباً 18 ممالک سے 60 کوہ پیماؤں نے موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کرنے کے لیے کے-ٹو کے بیس کیمپ پر ڈیرے ڈالے تھے۔
مسلسل خراب موسم کی صورتِ حال کے پیشِ نظر مہم جو بیس کیمپ سے اسکردو روانہ ہو گئے ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق آئندہ سات روز تک موسم خراب رہنے کی پیش گوئی ہے جس کی وجہ سے سرمائی مہم 2020-2021 کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ سولہ جنوری کو دس نیپالی کوہ پیماؤں نے نرمل پُرجا کی قیادت میں پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کر کے تاریخ رقم کی تھی۔
بعدازاں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ، اُن کے صاحبزادے ساجد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
SEE ALSO: کے ٹو: خراب موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش روک دی گئیآکسیجن کی کمی اور صحت کی خرابی کے باعث ساجد سدپارہ کو آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر ہی اپنا مشن ملتوی کرنا پڑا۔ جس کے بعد وہ بحفاظت بیس کیمپ میں واپس پہنچ گئے۔ تاہم باقی ماندہ تینوں کوہ پیماؤں کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ مقامی چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما اور دیگر ماہرین کی جانب سے لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ اور ریسکیو مشن جاری ہے لیکن تا حال تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق موسم کے صاف ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز کے سرچ آپریشن کے دوران ٹیم کو چند مقامات پر کوہ پیماؤں کی چند باقیات ملی تھیں جس کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ شواہد کیمپ سلیپنگ بیگ کے ہیں۔
اگرچہ تینوں لاپتا کوہ پیماؤں کے زندہ بچنے کے بارے میں اب تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں ہوا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر کسی کا اتنے دنوں تک زندہ رہنا ناممکن ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نذیر سدپارہ کا شمار دنیا کے نامور کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1981 میں کے ٹو اور سن 2000 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی 'ماؤنٹ ایورسٹ' سر کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نذیر کا کہنا تھا کہ "سننے میں آ رہا ہے کہ کیمپ تھری میں جان سنوری کو فراسٹ بائیٹ ہوا تھا اور چلی سے تعلق رکھنے والے ہوان پابلو مور بھی منجھے ہوئے کوہ پیما نہیں تھے۔ اس تمام صورتِ حال میں علی سدپارہ پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور دونوں غیر ملکی کوہ پیماؤں کا انحصار علی سدپارہ پر ہی تھا۔
نذیر سدپارہ کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورت میں جب تیز ہوا چل رہی ہو اور درجہ حرارت منفی 60 سے بھی نیچے ہو تو ایسے حالات میں ایک جگہ بیٹھ کر آٹھ گھنٹے سے زیادہ گزارنا ناممکن ہے۔
ان کے بقول، "آکسیجن بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس گھنٹے تک ہی آپ کے کام آ سکتی ہے۔ اتنی ٹھنڈ میں خون کی روانی بہت زیادہ سست ہوتی ہے اور سب کچھ جمنا شروع ہو جاتا ہے۔"
کے ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ اب تک اسے سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے بیالیس سالہ اٹانس اسکاٹوو گر کر ہلاک ہوئے تھے۔ اُن کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی۔ اس سے قبل اسی مشن سے منسلک ہسپانوی کوہ پیما بھی ہلاک ہو گئے تھے۔