بھارت کے نئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے عہدے کا حلف اٹھا لیا، چھ ماہ بعد سبک دوش ہو جائیں گے

فائل فوٹو

  • جسٹس سنجیو کھنہ نے پیر کو بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا ہے۔
  • جسٹس سنجیو کھنہ کی مدت چھ ماہ کی ہوگی۔ وہ اگلے سال 13 مئی کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے۔
  • جسٹس سنجیو کھنہ دہلی کے قانون دانوں کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
  • ان کے والد جسٹس دیو راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ جب کہ چچا ایچ آر کھنہ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔
  • جسٹس سنجیو کھنہ سپریم کورٹ کے 450 بنچوں میں شامل رہے اور انہوں نے مجموعی طور پر 115 فیصلے لکھے۔

نئی دہلی— جسٹس سنجیو کھنہ نے پیر کو سپریم کورٹ کے 51 ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ صدر دروپدی مورمو نے راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) میں ان سے حلف لیا۔

سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی جانب سے ان کا نام چیف جسٹس کے لیے تجویز کرنے پر حکومت نے 24 اکتوبر کو ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے ان کو اگلا چیف جسٹس نامزد کیا تھا۔

جسٹس سنجیو کھنہ کی مدت چھ ماہ کی ہوگی۔ وہ اگلے سال 13 مئی کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے۔

خبروں میں بہت زیادہ رہنے والے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ 10 نومبر کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ سبک دوشی سے عین قبل انھوں نے کئی اہم فیصلے کیے جن میں اتر پردیش کے مدارس کے حق میں دیا جانے والا فیصلہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا فیصلہ قابلِ ذکر ہیں۔

جسٹس سنجیو کھنہ دہلی کے قانون دانوں کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد جسٹس دیو راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ جب کہ چچا ایچ آر کھنہ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔ ایچ آر کھنہ کو کافی شہرت حاصل ہوئی تھی۔

جسٹس سنجیو کھنہ نے کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔ انہوں نے پارلیمانی انتخابات سے قبل دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کو عبوری ضمانت اور بعد میں مکمل ضمانت دی تھی۔

انہوں نے دہلی کے سابق نائب وزیرِ اعلیٰ منیش سسودیا کو بھی ضمانت دی اور کہا کہ کیسز میں تاخیر ضمانت کی جائز بنیاد ہے۔

وہ اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے الیکٹورل بانڈز کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا تھا۔

اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا تھا کہ گمنام چندے سے انتخابی فنڈنگ میں شفافیت کی کمی ہوتی ہے اور اس سے جمہوری طرز عمل متاثر ہوتا ہے۔

انہوں نے بلقیس بانو معاملے میں دو قیدیوں کی درخواست ضمانت خارج کر دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ پٹیشن غلط ہے۔ ان کو اپنی سزا پوری کرنی ہوگی۔

SEE ALSO: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار برقرار؛ بھارتی چیف جسٹس کا ریٹائرمنٹ سے قبل آخری فیصلہ

یاد رہے کہ گجرات حکومت کی جانب سے تمام قیدیوں کی سزا معاف کرنے اور جیل سے رہا کیے جانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کر کے ان کو دوبارہ جیل بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد ہی دو قیدیوں نے درخواست ضمانت داخل کی تھی جنہیں سنجیو کھنہ نے خارج کر دیا تھا۔

ممبئی کے ایک نجی کالج کی جانب سے مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا معاملہ جب سپریم کورٹ میں آیا تو سنجیو کھنہ نے کالج کے اس سرکلر کو خارج کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کالج میں حجاب پہننے یا کسی مذہبی علامت کے اظہار کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دی۔

انہوں نے پابندی کو جائز ٹھہرانے والے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر اظہار حیرت بھی کیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا طلبہ کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا حق نہیں۔ کیا بچوں کو ان کے رول نمبر سے پہچانا جائے گا۔

SEE ALSO: بھارت: سپریم کورٹ میں 'انصاف کی دیوی' کے نئے مجسمے پر تنازع

جسٹس سنجیو کھنہ نے کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ متھرا کے مقدمے میں ہندو فریق کی ان دو اپیلوں کو خارج کر دیا تھا جن میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ وہ مسجد کمیٹی کے خلاف کارروائی کرے یا ہندو فریق کے حق میں یک طرفہ فیصلہ سنا دے۔

البتہ وہ اس بینچ میں بھی شامل رہے ہیں جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔ وہ اس بینچ میں بھی شامل رہے ہیں جس نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ایک مقدمے میں حکومت کے موقف کی حمایت کی تھی۔

انہوں نے ہم جنس شادی کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں داخل کی جانے والی 52 پٹیشنز پر سماعت کرنے والے بینچ سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

جسٹس سنجیو کھنہ سادہ زندگی گزارنے اور خبروں سے دور رہنے والے جج ہیں۔ وہ اپنی رہائش گاہ کے قریب لودھی گارڈن میں خاموشی سے روزانہ کئی کلومیٹر تک واک کرنے کے عادی تھے۔

لیکن جب چیف جسٹس نامزد ہونے کے بعد سیکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ سیکیورٹی جوانوں کے ساتھ مارننگ واک کریں تو انہوں نے اس خیال سے اپنی یومیہ واک بند کر دی کہ اس طرح لوگ انہیں پہچان جائیں گے۔

SEE ALSO: بھارت: سپریم کورٹ میں 'انصاف کی دیوی' کے نئے مجسمے پر تنازع

ان کی سادگی اور خبروں سے دور رہنے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر نرمان بھون میں واقع ان کے پولنگ بوتھ کے پاس صحافیوں کی بھیڑ تھی تاکہ وہ ووٹ ڈالتے وقت ان کی تصویر لے سکیں۔

لیکن انہوں نے صحافیوں کی نظروں سے خود کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ کی گاڑی اور سیکیورٹی لینے سے انکار کیا اور وہ اپنی نجی گاڑی سے جا کر خاموشی سے ووٹ ڈال آئے۔

چودہ مئی 1960 کو دہلی میں پیدا ہونے والے جسٹس کھنہ نے دہلی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔

انہوں نے 1983 میں دہلی میں بار کونسل سے بحیثیت وکیل خود کو رجسٹر کروایا تھا۔ وہ پہلے تیس ہزاری اور پھر دہلی ہائی کورٹ میں وکالت کرتے رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت میں عدلیہ کے اختیارات اور ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟

سال 2005 میں انہیں دہلی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج اور ایک سال بعد مستقل جج نامزد کیا گیا۔ جنوری 2019 میں انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔

جب جسٹس چندر چوڑ چیف جسٹس بنے تھے تو ان کے سامنے زیر التوا مقدمات کی تعداد 69 ہزار تھی۔ لیکن جسٹس کھنہ کے سامنے ان کی تعداد 82 ہزار ہے جن میں بغاوت، ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرنے میں اسپیکر کا کردار اور الیکشن کمشنروں کے تقرر کا طریقۂ کار وغیرہ شامل ہیں۔

وہ سپریم کورٹ کے 450 بنچوں میں شامل رہے اور انہوں نے مجموعی طور پر 115 فیصلے لکھے۔