جسٹس فائز عیسیٰ کیس، سماعت براہِ راست دکھانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظرِثانی کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

دورانِ سماعت اپنے دلائل میں جسٹس فائز عیسیٰ نے حکومت اور ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جمعرات کو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر حکومتی ریفرنس کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس پر نظرِثانی اپیل کی سماعت کی۔

آج سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے عدالتی کارروائی براہ راست ٹی وی پر نشر کرنے کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے سخت ریمارکس دیے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں کئی مواقع پر روکا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے سماعت براہِ راست دکھانے سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔


جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ سے کہا کہ آپ کا بولا ہوا ہر لفظ میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے جسٹس فائز عیسیٰ سے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دوسرے فریق کے وکیل کی تذلیل نہیں کرتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے قانونی نکات پر دلائل دیے تھے۔

سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

جسٹس فائز عیسی نے مختصر حکم جلد سنانے کی استدعا کی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نظرِ ثانی کیس کا فیصلہ بھی جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ سے قبل کرنا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر

مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

بعد ازاں سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔