سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف اثاثہ جات کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں بدنیتی کا نکتہ سب سے اہم ہے۔ اب تک ان سوالوں کا جواب نہیں مل سکا کہ ججز کے خلاف شواہد کیسے اکٹھے کیے گئے۔
جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ججز کی نگرانی بھی اہم نکتہ ہے جس کی وضاحت حکومت کو دینی ہو گی۔
سماعت شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ آپ کے اکثر سوالات غیر متعلقہ ہیں۔ ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) سے متعلق دو، تین مثالیں اور بیان کر دیں۔
عمر عطا بندیال نے کہا کہ بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے؟ درخواست گزار کا موقف ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیرِ کفالت نہیں۔ جج کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت ہو گی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے۔
دوران سماعت جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ ذہن میں رکھیں کے ماضی میں ایک جمہوری حکومت ججز کی جاسوسی پر جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو نومبر 1996 میں کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے برطرف کر دیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر میں جاسوسی کے آلات نصب کرائے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین دیگر تمام قوانین کا ماخذ ہے۔ مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آئین میں زیرِ کفالت، اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں۔ ایمنسٹی اسکیم کے تحت جج اور ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں۔ بچوں کے لیے تو پھر بھی زیرِ کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے۔ اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں۔ اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔
فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ 2018 کی ایمنسٹی سکیم قانون کے تحت ججز، ان کی بیگمات یا ان کے زیرِ کفالت بچے اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جس کے تحت ججز اور ان کی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں۔ آپ کی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق؟
فروغ نسیم نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے۔ اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے ان کی اہلیہ یا زیرِ کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں جو اثاثے تسلیم کیے گئے ان کو ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ اگر جج کی اہلیہ اپنی آمدنی سے اثاثے خرید سکتی ہیں تو اس کی وضاحت بھی وہی دے سکتی ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں، کیا آپ نے جج کی اہلیہ سے پوچھا کہ جائیداد یا فلیٹ کہاں سے آئے۔ نیب قانون میں بھی جس کے نام پراپرٹی ہوتی ہے اس کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگر اصل سورس نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ڈسپلنری ایکشن میں خاندان کے فرد سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر ایک خود مختار خاتون اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ کل اس کی وضاحت بھی دے سکتی ہیں۔ ججز کو ملنے والی مراعات اور فوائد اس کیس سے کیسے متعلقہ ہیں؟
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی ایشو ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میرا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دوں گا۔
فروغ نسیم نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ آئندہ دو روز میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
بعدازاں کیس کی مزید سماعت جمعے تک ملتوی کر دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔