پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے حکومت مخالف احتجاج کے 'پلان بی' پر عمل درآمد کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکن سڑکوں پر نکلیں اب گلی گلی احتجاج ہو گا۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے مشاورتی اجلاس کے بعد دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں 14 روز سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اب 'پلان بی' پر عمل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہم یہاں سے جائیں گے اور سڑکیں بلاک کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ جس طرح ہم اسلام آباد میں پُرامن رہے اب دوسرے مرحلے میں بھی ہم پُرامن رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے خبردار کیا کہ کوئی ریاستی ادارہ ہمارے کارکنوں کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ "کوئی مائی کا لعل ہمارا راستہ نہیں روک سکتا۔ ہم پُرامن ہیں اور تصادم نہیں چاہتے۔"
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق پلان بی کے تحت جمعیت علماء اسلام (ف) نے ملک بھر کی اہم شاہراہوں اور موٹرویز کو بند کرنے کی حکمت عملی طے کی ہے۔ فیصلے کے بعد آزادی مارچ کے شرکا نے خیمے کھول کر سامان سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا عطاء الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پلان بی پر جزوی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ ان کے بقول، کوئٹہ چمن روڈ بلاک ہے جب کہ شاہراہ ریشم کو بھی مختلف مقامات سے بند کر دیا گیا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے اگلے لائحہ عمل کو پلان 'بی' کا نام دیا تھا۔
کراچی سے 27 اکتوبر کو نکلنے والا آزادی مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد کے پشاور موڑ کے مقام پر پہنچا جہاں ملک بھر سے جے یو آئی کے کارکن آکر جمع ہوئے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ابتدائی طور پر کارکنان کے مجمع کو مارچ کا نام دیا اور بعدازاں یہ دھرنے کی شکل اختیار کر گیا۔
اس دھرنے میں شریک کارکنان اپنے ساتھ کئی روز کا راشن ساتھ لائے تھے اور انہوں نے سردی سے بچنے کے لیے ٹینٹ اور دیگر انتظامات بھی کیے تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ملک کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے سارے پلان ناکام ہوں گے۔ مولانا جمہوری اور عوامی پلان سامنے لائیں۔
مولانا کا پلان (بی) سیاسی بدحواسی پلان ہے۔انہیں سمجھ نہیں آرہی وہ کیا کریں؟ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے سارے پلان ناکام ہوں گے۔مولانا جمہوری اور عوامی پلان سامنے لائیں۔(پلان بی) کے تحت کوئی ایسا غیر ذمہ دارانہ اقدام نہ اٹھائیں جو آپ کی اپنی سیاسی عبرت کا باعث بن جائے۔
— Firdous Ashiq Awan (@Dr_FirdousPTI) November 13, 2019
جے یو آئی کے مطابق، پلان 'بی' پر باضابطہ طور پر اب جمعرات سے عمل درآمد کیا جائے گا اور اس حوالے سے پاکستان میں 'پلان بی کمنگ سون' (#PlanB_ComingSoon) ٹرینڈ کر رہا ہے۔
ٹوئٹر صارفین ہیش ٹیگ پلان بی میں جے یو آئی کے ممکنہ ردعمل سمیت دلچسپ تبصرے بھی کر رہے ہیں۔
حامد مندوخیل نامی صارف کہتے ہیں پلان 'بی' عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے بہت خطرناک ہے۔
Plan B is Very Danger for @ImranKhanPTI and His selected Team.#PlanB_ComingSoon pic.twitter.com/K9SvVrhK9E
— Hamid Mandokhail (@HamidMandokhail) November 12, 2019
عمر پاکستانی نامی صارف نے جے یو آئی کے دھرنے کی ایک تصویر شیئر کی جس میں کارکنان کی بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ پلان 'اے' تھا اور پلان 'بی' انشااللہ جلد آرہا ہے۔
This is Was Paln A #PlanB_ComingSoon Inshallah pic.twitter.com/AO2IdzbhXI
— عمر پاکستانی 🌐 (@Ummifarooq786) November 12, 2019
ٹوئٹر پر فرضی نام سے موجود ایک صارف نے لکھا کہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ پلان 'بی' کے بعد سی، ڈی، ای اور ایف بھی ہوگا اور آخر کار اس کا اختتام جی ایچ کیو پر ہوگا، مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں، کیا ہوتا ہے۔
#PlanB_ComingSoonWell it seems after Plan B there will be plan C D E F and then finally the G. H. Q would be the end of it.. Watch out for updates
— ASK..... (@ASK7799) November 13, 2019
نورین نامی ٹوئٹر صارف کہتی ہیں پلان 'اے' تھا نواز شریف کو بچایا جائے اور پلان 'بی' زرداری ہے۔
Plan:A save Nawaz sharif.#PlanB_ComingSoonZardari 🤔
— Noureen/Guria (@Noureenakhtar16) November 13, 2019
عمران آفریدی نامی ٹوئٹر صارف نے آزادی مارچ کے دھرنے کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا اور کہا کہ اب آزادی مارچ ہر شہر تک پھیلے گا۔
#AzadiMarch will spread to every city now ✌️✌️👍👍 #PlanB_ComingSoon pic.twitter.com/MNY4bavL5t
— Imran Afridi (@ImranAfridi2018) November 12, 2019
جمعیت علماء اسلام (ف) پلان بی پر تاحال حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ ابتداً یہ دونوں جماعتیں آزادی مارچ میں شریک تھیں۔ تاہم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی لاک ڈاؤن یا سڑکیں بند کرنے کی تجویز کی مخالف ہیں۔