حیات اللہ قتل کیس، عدالتی تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے کی اپیل کی سماعت 

پشاور ہائی کورٹ

قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی حیات اللہ کو 2005 کے اواخر میں اغوا کرنے اور 2006 کے وسط میں پراسرار طور پر ہلاک کرنے کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنے کے لئے دائر درخواست کی سماعت منگل کے روز ہوئی۔

یہ درخواست حیات اللہ کے بھائی احسان اللہ داوڑ نے سینئر قانونی ماہر لطیف آفریدی کے توسط سے دائر کی ہے۔ عدالت نے منگل کے روز ہونے والی سماعت کے موقع پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بیس دن کے اندر جواب جمع کرنے کے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حیات اللہ کے بھائی کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کی۔ گزشتہ سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے مگر اس کے باوجود ابھی تک باضابطہ جواب داخل نہیں کیا گیا۔

تاہم، درخواست گزار کی جانب سے طارق افغان ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے کہا کہ 2017 کی پاکستان انکوائری کمیشن کے سیکشن 15 کے تحت حکومت عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے کی پابند ہے۔ لہٰذا، انہوں نے عدالت سے حیات اللہ کے اغوا اور قتل کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے کی اپیل کی۔

حیات اللہ کون تھا؟

حیات اللہ کا تعلق شمالی وزیرستان کی میر علی سب ڈویژن کے گاؤں ہرمز سے تھا اور وہ اس علاقے سے انگریزی اخبار دی نیشن، اردو اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ اور پشتو ٹیلی ویژن اے وی ٹی خیبر کے ساتھ منسلک رہا تھا۔


9/11 کے سانحے کے بعد حیات اللہ نے امریکہ سمیت کئی دیگر بیرونی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ہمراہ افغانستان، قبائلی علاقوں، القاعدہ، تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں پر تفتیشی رپورٹیں دی تھیں۔ اسی دوران وہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں ایک بین الاقوامی ادارے کے لئے رپورٹ بناتے وقت لگ بھگ ایک ہفتے تک افغانستان کے صوبہ پکتیکا اور جنوبی وزیرستان کی مشترکہ تحصیل بیرمل میں اتحادی افواج کی قید میں رہے تھے؛ جبکہ کئی بار پاکستان کے سیکورٹی اور تحقیقاتی اداروں نے انہیں حراست میں لیا تھا۔

حیات اللہ اغوا

بتایا جاتا ہے کہ ویسے تو ابتدا ہی سے حیات اللہ کے صحافتی فرائض اور رپورٹنگ سے پاکستان کے سیکورٹی ادارے تنگ آ کئے تھے مگر ستمبر 2005 کے دوران مبینہ امریکی ڈرون طیاروں نے القاعدہ کے سرکردہ کمانڈر حمزہ ربی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں حمزہ ربی تو بچ نکلا تھا مگر اس وقت کے فوجی حکمران نے اس واقع کو امریکی ڈرون حملے کے بجائے عسکریت پسندوں کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا تھا۔


القاعدہ کے سرکردہ کمانڈر حمزہ ربی پر دوسرا مبینہ ڈرون حملہ شمالی وزیرستان کے میر علی کے علاقے میں تین دسمبر 2006 کو ہوا، جس میں وہ میزبان اور متعدد ساتھیوں سمیت ہلاک ہوا۔ اس حملے کی بھی حیات اللہ نے تصاویر کے ساتھ کوریج کی تھی۔ دو دن بعد پانچ دسمبر کو جب وہ بھائی سمیت پشاور جا رہا تھا تو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا اور بعد میں سولہ جون 2006 کو اطلاعات کے مطابق انکی گولیوں سے چھلنی اور ہتھکڑیوں میں جکڑی لاش ملی تھی۔

شدید رد عمل

حیات اللہ کے اغوا کے بعد ملک بھر کے صحافی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور انکی جلد از جلد بحفاظت بازیابی کے مطالبے کرتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف سمیت ایک اعلیٰ ترین عہدیدار نے وعدے کئے تھے مگر کوئی بھی ان وعدوں کو ایفا نہ کر سکا۔

سولہ جون 2006 کو حیات اللہ کی لاش ملنے کے بعد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر اس وقت حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس رضا محمد خان پر مشتمل کمیشن سے واقعے سے متعلق تحقیقات کرائی تھی۔

پشاور ہلائی کورٹ کے جسٹس رضا محمد خان پر مشتمل عدالتی کمیشن نے 2007 کے اوائل میں رپورٹ مکمل کرکے سابق گورنر کے حوالے کی تھی۔ مگر یہ تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی۔

پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سابق عہدیداروں، قبائلی رہنمائوں، اعلیٰ سول اور فوجی عہدیداروں اور حیات اللہ کے بھائی نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیانات قلم بند کیے تھے۔ صحافیوں کی متعدد ملکی و غیر ملکی تنظیموں کے علاوہ امریکہ کی 'سی پی جے' اور فرانس کی 'آر ایس ایف' جیسی تنظیموں نے بھی اس عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے مطالبے کئے، مگر حکومتی ادارے ان مطالبات کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔

قبائلی ضلع خیبر سے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن، منظور آفریدی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں حیات اللہ کے بھائی احسان اللہ داوڑ کی عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔