اردن میں سیاسی اصلاحات کے مطالبات کا مستقبل

اردن میں سیاسی اصلاحات کے مطالبات کا مستقبل

مشرقِ وسطیٰ میں دھماکہ خیز مظاہرے شروع ہونے سے پہلے ہی اردن کی سڑکوں پر سیاسی کارکنوں نے تبدیلی کی مہم شروع کر دی تھی۔ دوسرے عرب ملکوں کی شورش کے مقابلے میں عمان میں مظاہرین کے مطالبے بڑی حد تک غیر متنازعہ معلوم دیتے تھے۔ لیکن مقامی لیڈر جانتے ہیں کہ اردن میں جمہوری اصلاحات کا مطلب صرف زیادہ نمائندہ حکومت نہیں ہو گا بلکہ ان سے علاقے میں سیکورٹی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔

گذشتہ دو مہینوں سے ہر جمعہ کو اردن کے لوگ جھنڈے اٹھائے لاؤڈ اسپیکروں پر اپنا مطالبات کا اعلان کرتے رہےہیں۔ صحافی بھی ان کے جلوس کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ ان کی تصویریں لیتے ہیں، سیاسی کارکنوں کے مطالبات اور حکومت کے خلاف ان کی شکایات اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ کے ساتھ ان کا عہدِ وفا داری سنتے ہیں۔

ابتدا میں احتجاجیوں کا مطالبہ اقتصادی انصاف تک محدود تھا۔ انہیں کم تنخواہوں، زیادہ قیمتوں اور بہت زیادہ ٹیکسوں کی شکایت تھی۔ شاہ عبد اللہ نے ان کی شکایتوں کے جواب میں کابینہ اور وزیرِ اعظم کو بر طرف کر دیا۔

انھوں نے اصلاحات کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ احتجاجیوں سے متفق ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے علاقے میں انقلابی جذبہ پھیلا ہے اردن کے بہت سے لوگوں نے جمہوری انتخابات اور آئینی اصلاحات کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقتصادی مسائل کی اصل وجہ کرپشن ہے اور انہیں ایسی حکومت چاہیئے جو لوگوں کے سامنے جوابدہ ہو۔

یونیورسٹی آف جورڈن میں سیاسیات کے پروفیسر حسن براری کہتے ہیں کہ جب تک اصلاحات کو قانونی شکل نہیں دی جاتی احتجاجی مظاہرے جاری رہیں گے۔ اگر بہت زیادہ وقت لگا تو انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔ حکام سست روی سے کام لے رہے ہیں۔’’وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ وہ اصلاحات کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن کرنا کچھ نہیں چاہتے۔ وہ یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا جو طوفان آیا ہوا ہے وہ جلد ہی ٹھنڈا پڑ جائے گا اور حالات پرانی ڈگر پر واپس آ جائیں گے‘‘۔

اردن کے بیشتر لوگوں کی طرح براری بھی بادشاہ کو کسی بات کا الزام نہیں دیتے۔ شاہ عبداللہ کو ترقی پسند اور روشن خیال سمجھا جاتا ہے اور وہ بہت زیادہ مقبول ہیں۔ اگرچہ اردن میں سیاسی اختلافِ رائے کو بڑی حد تک برداشت کیا جاتا ہے لیکن بادشاہ پر تنقید کرنا خلاف ِ قانون ہے۔

سیاسی اختلاف رائے سے اردن میں صرف احتجاج کرنے والوں کی زندگیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔ اسلامک ایکشن فرنٹ (IAF) جو اخوان المسلمین کا سیاسی شعبہ ہے ملک کی واحد حکومت مخالف سیاسی پارٹی ہے۔

اردن کے شاہ عبداللہ

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ کسی جمہوری انتخاب میں انہیں پارلیمینٹ میں 20 سے 25 فیصد نشستیں مل جائیں گی۔ داخلی طور پر اسلامک ایکشن فرنٹ کا ایجنڈا حزبِ اختلاف کے دوسرے گروپوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

یہ پارٹی کہتی ہے کہ وہ حکومت میں کرپشن اور دھوکہ دہی ختم کرنا اور نمائندہ انتخابات منعقد کرنا چاہتی ہے۔ وہ اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور غریبی کو کم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن خارجہ پالیسی کے معاملے میں اسلامک ایکشن فرنٹ کی سوچ مختلف ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان جو کمزور سا امن سمجھوتہ ہے اسے ختم کرنے کے لیئے اس تنظیم کے پاس کوئی عملی وجہ موجود نہیں ہے ۔ لیکن اسلامک ایکشن فرنٹ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل نمرالا آساف (Nimer Al-Assaf) کہتے ہیں کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ امن سمجھوتہ ختم کر دیا جاتا۔ ’’اردن میں ہم لوگ اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتے سے متفق نہیں ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصفانہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خیال میں اس سمجھوتے سے اردن کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے‘‘۔

اردن کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ اندیشہ کہ اسلامک ایکشن فرنٹ کی قیادت علاقائی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے مبالغے پر مبنی ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر محمد المومنی کہتے ہیں کہ یہ پارٹی نہ تو اسرائیل سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی وہ اپنی طاقت بر قرار رکھ سکتی ہے اگر اس نے داخلی مسائل پر سے اپنی توجہ ہٹائی۔ ’’وہ اسرائیل کو پسند نہیں کرتے اور اگر یہ چیز سو فیصد انکے کنٹرول میں ہو تو وہ شاید امن سمجھوتے کی منسوخی سمیت کچھ احمقانہ حرکتیں کر سکتےہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ انتہائی حساس معاملات ہیں۔ لہذا وہ ایسا کوئی اقدام کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے‘‘۔

اسلامک ایکشن فرنٹ کی مقبولیت کے باوجود اردن کے بہت سے لوگوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ یہ تنظیم اردن پر مذہبی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کرے گی۔

لیکن مومنی کہتے ہیں کہ یہ اندیشے بے بنیاد ہیں اور اسلامی پارٹیوں کی روز افزوں طاقت کے بارے میں بین الاقوامی تشویش کا کوئی جواز نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی نظریوں کے مطابق کسی بھی قسم کی جمہوری حکومتیں، بین الاقوامی شراکت داری میں زیادہ کامیاب ہو سکتی ہیں۔ ’’

انہیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ جمہوریتیں زیادہ پُر امن ہوتی ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کرنا آسان ہوتا ہے اور ان میں عالمی امور کو قبول کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے‘‘۔

لیکن کسی خالص جمہوریت کا تصور اردن میں بہت زیادہ مقبول نہیں ہے ۔ احتجاج کرنے والے لوگ بادشاہت کو ختم کرنا نہیں چاہتے اور بہت سے لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر ملک کے سب لیڈر منتخب ہوئے تو اس طرح حکومت میں فلسطینیوں کی اثر و روسوخ بہت بڑھ جائے گا اور علاقے میں اسرائیل کے ساتھ کمزور امن اور اردن کی قومی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ فلسطینی جو ملک کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہیں انہیں ملک کے دوسرے لوگوں کے برابر اختیارات ملنے چاہئیں۔