جانسن نے انتخاب تو جیت لیا؛ کیا اب انہیں اسکاٹ لینڈ کی فکر کرنی چاہیے؟

فائل

یورپی یونین سے الگ ہونا ہی واحد معاملہ نہیں ہے جس کی برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو فکر ہونی چاہیے۔

انتخابات میں اس ہفتے جانسن کو واضح اکثریت ملی ہے۔ وہ انتخابی مہم کی کامیابی کا نعرہ 'گیٹ بریگزٹ ڈن' تو شاید پورا کر لیں، لیکن اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئیرلینڈ کا معاملہ ایسا ہے جو برطانیہ کے مستقبل کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔

اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئیرلینڈ نے بریگزٹ سے علیحدگی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا؛ جب کہ اسی نعرے کی بنیاد پر ووٹروں نے کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت سے جتوایا۔ ہو سکتا ہے کہ علاقے ہمیشہ کے لیے لندن سے دور ہو جائیں۔

کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد اپنے خطاب میں جانسن نے کہا کہ انتخابی نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین کو چھوڑنے سے ''انکار ممکن نہیں۔ یہ برطانوی عوام کا ایک پرکشش اور یقینی فیصلہ ہے''۔

حالانکہ، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہ انگریز کی پسند ہو سکتی ہے، جن کی برطانیہ کی چھ کروڑ 60 لاکھ آبادی میں سے تعداد 56 فی صد ہے۔ سال 2016ء میں یورپی یونین کی رکنیت کے معاملے پر ہونے والے ریفرنڈم میں، انگلینڈ اور ویلز کے چھوٹے علاقے نے تنظیم سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ نے ایسا نہیں کیا۔

جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں انگلینڈ نے 345 کنزرویٹو قانون سازوں کو منتخب کیا، یعنی 365 کے دارالعوام میں ماسوائے 20 نشستوں کے تمام ارکان انہی کی جماعت کے منتخب ہوئے، ایسے میں جب جانسن کی پارٹی نے ملک بھر سے کامیابی حاصل کی۔

اسکاٹ لینڈ میں 59 نشستوں میں سے اسکوٹس نیشنل پارٹی (ایس این پی) نے 48 نشستیں جیتیں، جو بریگزٹ کی مخالف ہے اور برطانیہ سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔

ایس این پی رہنما، نکولا سٹرجن نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کی ''زوردار'' کامیابی سے پتا چلتا ہے کہ ''برطانیہ کے باقی علاقے کے مقابلے میں اسکاٹ لینڈ کی اکثریت اپنے مستقبل کے بارے میں مختلف سوچ رکھتی ہے''۔

کئی عشروں سے ایس این پی نے اسکاٹ لینڈ کو آزاد کرانے کی مہم چلائی ہے، اور 2014ء میں اس کوشش میں تقریباً کامیاب ہو گئی تھی، جب اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے الگ ہونے پر ریفرنڈم کرایا تھا۔ ملک کا حصہ رہنے والوں نے 45 کے مقابلے میں 55 فی صد سے جیتا تھا۔

لیکن، اب ایس این پی دلیل دیتی ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں صورت حال بدل چکی ہے، چونکہ اسکاٹ لینڈ کو اپنی مرضی کے خلاف یورپی یونین سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسٹرجن نے جمعے کے روز کہا کہ جانسن کو ''اسکاٹ لینڈ کو یورپی یونین سے نکالنے کا مینڈیٹ نہیں ملا، اور آزادی پر نیا ریفرنڈم کرا کے اسکاٹ لینڈ کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہو گا۔

جانسن کہتے ہیں کہ جب تک موجودہ پارلیمان اقتدار میں ہو گی وہ ریفرنڈم کی اجازت نہیں دیں گے، جو اب 2024ء تک اقتدار میں رہے گی۔ جانسن کے دفتر نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے جمعے کے روز اسکاٹ لینڈ کی لیڈر کو بتایا کہ ''2014ء کے ریفرنڈم کے نتائج فیصلہ کن تھے، جن کی پاسداری کی جانی چاہیے''۔

اخبار، 'اسکاٹ مین' نےہفتے کے روز مقابلے کی اس صورت حال کو مختصراً یوں بیان کیا، روزنامہ نے پہلے صفحے پر اسٹرجن اور جانسن کی بڑی تصاویر کے اوپر جلی حروف میں یہ سرخی چسپاں کی: ''دو واضح کامیاں۔ تصادم کا ایک ہی راستہ''۔