وائٹ ہاؤس طلسماتی جگہ ہے مگر کام اتنے ہیں کہ بس۔۔! جل بائیڈن

خاتون اول، جل بائیڈن۔ 22 جون، 2021ء (فائل فوٹو)

امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار سنبھالے ایک سال ہو چکا ہے۔جو بائیڈن کو صدر بنتے ہی کئی مشکل چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ گو کہ ان کی انتخابی مہم کا نعرہ 'قوم کو یکجا کرنا' رہا ہے، مگر ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی طور پر شدید منقسم ہو، کرونا وبا کی وجہ سے معیشت متاثر ہو، عوام مہنگائی سے پریشان ہوں اور قدرت بھی رحم نہ کھا رہی ہو، قوم کو ایک کرنا انتہائی دقت طلب کام نظر آ رہا ہے۔

بائیڈن حکومت کو جو بھی چیلنج درپیش ہوں مگر اپنے ہمدردانہ اور امید بھرے الفاظ کے ساتھ ان کی اہلیہ جل بائیڈن عوام سے اپنا تعلق گہرا کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔

امریکہ کی موجودہ خاتون اول جل بائیڈن جب سے وائٹ ہاؤس منتقل ہوئی ہیں شہریوں کے دکھ بانٹتے ہی نظر آ رہی ہیں، ایک ایسا کردار جسے نبھانے کے بارے میں خود، بقول ان کے، انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔

امریکی سماج میں خاتونِ اول کا کردار

امریکی معاشرے میں صدر کا خاندان سے جڑا ہونا قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انتخابی مہم ہو یا ملکی اور غیر ملکی دوروں پر اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے خواتین اول بھی ہمیشہ اسپاٹ لائٹ میں رہتی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میڈیا کی نظریں انتہائی باریک بینی سے ان کا جائزہ لے رہی ہوتی ہیں۔

خاتون اول لباس کیسے زیب تن کرتی ہیں؟ مختلف مواقع پر ان کے چہرے کے تاثرات کیا ہوتے ہیں؟ کیا وہ صدر کے ہم قدم چلتی ہیں یا ایک قدم پیچھے؟ وہ خاموش طبع ہیں یہ مضبوط موقف کی حامل ہیں؟ یہ سب ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے اور میڈیا اور عوام دونوں ان کی مصروفیات میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

کبھی یہ تنہا سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں تو کبھی ملک کے سربراہ کے ساتھ عوام کی خوشیاں اور غم بانٹتی۔

امریکی صدارت اور مشکلات

امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے ایک ایسے وقت صدارت کا عہدہ سنبھالا جب امریکہ پہلے ہی کرونا وبا کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ پہلے بے روزگاری پھر بڑھتی مہنگائی اس کے ساتھ افغانستان سے انخلا اور بحران کی صورتحال۔

یہی سب کم نہیں تھا کہ ملک میں قدرتی آفات کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

ایسے میں بعض سروے رپورٹوں کے مطابق جو بائیڈن کی پہلے سال کی کارکردگی پر مقبولیت کی شرح سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سال کی مقبولیت کی شرح سے بھی کم ہے۔

جو بائیڈن اس وقت مختلف محاذوں پر مسائل سے نبرد آزما ہیں ان حالات میں ان کی اہلیہ قوم کی غمگسار کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔

ستر سالہ جِل بائیڈن پیشے کے اعتبار سے کالج ٹیچر ہیں۔ وہ امریکہ کی پہلی خاتون اول ہیں جنہوں نے وائٹ ہاؤس سے باہر اپنی ملازمت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ امریکہ میں جہاں مختلف ریاستیں یکے بعد دیگرے قدرتی آفات کا سامنا کر رہی ہیں جل بائیڈن ہر جگہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر عوام کا دکھ بانٹنے پہنچ جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں ان کا خود کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا مگر وہ قدرتی طور پر اس میں خود کو ڈھال رہی ہیں۔

دوسروں کے درد سمجھتی ہوں، جل بائیڈن

ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکیوں نے اس تمام وقت میں بہت تکلیفیں سہی ہیں اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ یوں لوگوں کے زخم مندمل کرنے میں مصروف ہو جائیں گی۔

اس گفتگو سے ایک روز پہلے ہی جل بائیڈن ریاست کولوراڈو میں جنگل کی آگ سے متاثرہ افراد کی دلجوئی کر رہی تھیں۔ اس آگ میں گیارہ سو رہائشی مکانات اور عمارتیں جل کے خاکستر ہو گئی تھیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق جو بائیڈن کی ریٹنگ کیسی بھی ہو جل بائیڈن حکومت کی سفیر ثابت ہو رہی ہیں ان کا یوں تواتر کے ساتھ عوام میں نظر آنا بائیڈن انتظامیہ کو عوام سے جوڑنے کی کوششوں کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔

جل بائیڈن کے مطابق وہ سمجھتی ہیں کہ ریاست کینٹکی میں طوفانی بگولے کی تباہ کاریوں اور ریاست وسکونسن میں کرسمس پریڈ سانحے جیسے واقعات کے بعد غمزدہ خاندانوں سے ملنا اور دکھ بانٹنا ان کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اگر وہ بھی ایک عام متاثرہ انسان ہوتیں تو وہ بھی یہ چاہتیں کہ ان کے ان کی مشکل گھڑی میں ان کا صدر اور خاتون اول ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔

جل بائیڈن کے بقول بطور انسان زندگی کی تلخ حقیقتیں دیکھنے کے بعد وہ دوسروں کا دکھ بخوبی سمجھ سکتی ہیں۔

جل بائیڈن کی نجی زندگی

جل بائیڈن اور جو بائیڈن 1977 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جب ان کی پہلی بیوی اور بیٹی کو ایک کار حادثے میں ہلاک یوئے پانچ برس گزر چکے تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے جو بائیڈن کے دو بیٹوں کو پالا اور سال 2015 میں اپنے شوہر کے ساتھ ان میں سے ایک کو دفن ہوتے دیکھا۔ 46 سالہ بیو بائڈن برین کینسر سے نبرد آزما تھے۔

جل بائیڈن کے مطابق وہ اور ان کے شوہر جانتے ہیں کہ مشکل وقت میں لوگوں کے آگے بڑھنے سے کتنی تقویت ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں جو لوگ ساتھ آکر کھڑے ہوتے ہیں انہیں انسان کبھی فراموش نہیں کرتا۔

ورجینیا کمیونٹی کالج میں بطور استاد مستقل ملازمت کے ساتھ اور کرونا وبا کے باوجود جل بائیڈن ایسی جگہوں پر بھی موجود نظر آئیں جہاں ان کے شوہر نہ پہنچ سکے۔

کرونا وبا کے دوران ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں امریکی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے وہ تنہا جاپان پہنچ گئیں۔

اس ایک سال میں کبھی وہ اسکولوں میں ذہنی صحت پر مشورے دیتی نظر آئیں تو کبھی کووڈ ویکسینیش مراکز میں اسٹاف کا حوصلہ بڑھاتے میں مصروف، کبھی ملٹری بیسز میں وہ خاندانوں سے ان کی قربانیوں پر شکریہ ادا کر رہی ہوتی ہیں تو کبھی مقامی آبائی قبیلوں کے درمیان ان کے مسائل جاننے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔

کینسر کے مریضوں کے ساتھ بیٹھنا ہو، عوام کو ویکسین لینے پر مائل کرنا ہو یا پھر امریکی افواج میں شامل افراد کے گھر والوں کو ملازمتوں کے حصول میں مدد فراہم کرنا جل بائیڈن ہر جگہ پیش پیش ہیں۔

جہاں عوام سے روابط میں جل بائیڈن کی حکمت عملی کامیاب نظر آرہی ہے وہیں ملک میں کمیونٹی کالجز کی تعلیم مفت کرنے کی ان کی برسوں کی جدوجہد کو اس وقت دھچکہ پہنچا جب امریکی صدر کو فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے اس تجویز کو اخراجاتی ترجیحات میں سے نکالنا پڑا۔

اوہایو یونیورسٹی میں تاریخ کی استاد کیتھرین جیکسن کے مطابق جل بائیڈن قوم کے زخموں پر پھائے رکھنے والی پہلی خاتون اول نہیں۔ وہ یاد کرتی ہیں امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد اور تعمیر نو کے دوران کس طرح اس وقت کی خاتون اول لوسی ویب ہیس بھی قوم کو جوڑنے کی کوششوں میں پیش پیش رہی تھیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے اس سوال پر کہ وائٹ ہاؤس میں رہنا کیسا لگتا ہے؟ جل بائیڈن کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس ایک طلسماتی جگہ محسوس ہوتی ہے۔ "میں سوچتی ہوں، واہ! دیکھو میں کہاں ہوں" مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں ہاتھ میں کافی لیے بستر پر بیٹھ کر خبریں دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اس جگہ کے علاوہ اور بہت سی دوسری جگہوں پر ان کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول وہ پہلے بھی بتاتی رہی ہیں کہ اگر انہیں یہ پلیٹ فارم ملا تو وہ ایک بھی دن برباد نہیں کریں گی۔ اسی لیے وہ روز اٹھ کر سوچتی ہیں کہ آج کیا کیا جا سکتا ہے، کہاں جایا جا سکتا ہے۔ آج کا پلان کیا ہے؟

دو ہزار بائیس کے لیے ان کے منصوبے واضح ہیں۔ وہ تعلیم، فوجی خاندانوں اور کینسر ریسرچ کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی۔ اور اس دوران ظاہر سی بات ہے وہ بطور معلم بھی اپنی تعلیم جاری رکھیں گی۔

ان کی پلاننگ یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ انتظار میں ہیں کہ کب کرونا وبا ختم ہو اور وائٹ ہاؤس عوام کے لیے کھل سکے۔ جب بھی ایسا ہوا وہ وائٹ ہاؤس میں آرٹ اور آرٹسٹوں کو دعوت دینا چاہیں گی۔

یہ سال کیسا رہے گا؟ جل بائیڈن پر امید نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سب ہی کے لیے 'بہت ہوگیا' ہے۔ وہ بھی سب کی طرح ایک بہتر سال دیکھنے کی متمنی ہیں۔

(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)