امریکہ کی خاتونِ اول جل بائیڈن وائٹ ہاؤس میں آنے کے باوجود واشنگٹن ڈی سی کے قریب واقع کمیونٹی کالج میں بدستور پڑھاتی رہیں گی۔
عام طور پر خاتونِ اول وائٹ ہاؤس آنے کے بعد اپنی ملازمت چھوڑتی رہی ہیں۔ تاہم ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی حامل جل بائیڈن نے تدریسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کے بقول امریکی عوام خاتونِ اول کی سیاسی معاملات اور حکومتی اُمور میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔ تاہم وہ مختلف سماجی بہبود کے شعبوں میں اُن کی خدمات کو سراہتے رہے ہیں۔
امریکی خاتونِ اول کا کردار کیا ہوتا ہے؟
سابق صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی نے جب 1961 میں وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا تو اُنہیں یہاں چند نوادرات دیکھ کر حیرت ہوئی جس کے بعد اُنہوں نے وائٹ ہاؤس کے دیگر مقامات کو نوادرات سے آراستہ کیا۔
جیکولین نے وائٹ ہاؤس کی بحالی کی پیش کش کرتے ہوئے اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو بھی محفوظ بنانے کے لیے کام کیا۔
جیکولین کی دیکھا دیکھی بعد میں آنے والی خواتینِ اول نے بھی عوامی بہبود کے کسی ایک منصوبے کا بیڑا اُٹھانے کا سلسلہ شروع کیا۔
خاتونِ اول لیڈی برڈ جانسن جو ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرتی تھیں۔
اُنہوں نے وائٹ ہاؤس میں جنگلی پھولوں اور دیسی پودوں کے تحفظ کے لیے کام کیا۔
نینسی ریگن نے بچوں کو منشیات سے بچانے کے لیے مہم شروع کی جس کا سلوگن 'سے نو ٹو ڈرگ' (منشیات سے انکار) تھا۔
باربرا بش نے بچوں اور بڑوں میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کام کیا۔ جب کہ مشیل اوباما نے وائٹ ہاؤس میں سبزیاں اُگا کر صحت مند خوراک کو فروغ دینے کے لیے کام کیا۔
مورخ باربرا پیری کے مطابق عام طور پر امریکی عوام خاتونِ اول کو خواتین، بچوں، تعلیم، صحت، سماجی کاموں، منشیات کے خاتمے اور اس جیسے دیگر شعبوں میں کام کرتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
تاہم اس سے بڑھ کر امریکی حکومت میں کوئی عہدے لینے پر ماضی میں خاتونِ اول کو تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔
سن 1993 میں جب اس وقت کے صدر بل کلنٹن نے اپنی اہلیہ ہیلری کلنٹن کو ٹاسک فورس برائے نیشنل ہیلتھ کیئر سسٹم کا سربراہ مقرر کیا تو عوامی حلقوں میں اس پر اظہارِ ناپسندیگی کیا گیا۔
پیری کے بقول جب خاتونِ اول کو کسی پالیسی سازی میں شامل کیا گیا تو اس کا ردِ عمل آیا اور دوبارہ خاتونِ اول کو روایات کے مطابق وائٹ ہاؤس تک محدود رہنا پڑا۔
پردے کے پیچھے اثر و رسوخ
یوں تو خاتونِ اول کا کردار محدود ہوتا ہے۔ لیکن بعض ماہرین کے مطابق ماضی میں چند ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں خاتونِ اول نے کسی حکومتی عہدے دار کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اپنے شوہر پر زور دیا۔
کتاب 'فرسٹ وویمن' کی مصنفہ اور تاریخ دان کیٹ اینڈرسن کہتی ہیں کہ میلانیا ٹرمپ نے اُن کے اسٹاف کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر نامناسب رویہ رکھنے والے قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدے دار کو برطرف کرایا۔
اُن کے بقول نینسی ریگن بھی اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کے لیے اپنے شوہر رونلڈ ریگن کو سفارش کرتی تھیں۔
کیٹ اینڈرسن کے بقول ہیلری کلنٹن کی ہی بدولت جسٹس روتھ بیڈر کو امریکی سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔
اینڈرسن کے مطابق ہیلری نے اپنے شوہر بل کلنٹن سے کہا کہ جسٹس روتھ سپریم کورٹ میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوں گی۔
کیٹ اینڈرسن کہتی ہیں کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بظاہر خاتونِ اول کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن وہ اپنے شوہر کو ایسے مشورے ضرور دیتی ہیں جو ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کیٹ اینڈرسن کے الفاظ ہیں کہ "یہ خواتین بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے انہیں زیادہ با اختیار نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ معاشرے میں خواتین کو کم تر سمجھنے کا مجموعی تاثر ہے۔"
اُن کے بقول "مجھے اُمید ہے کہ جل بائیڈن کی صورت میں ہمیں ایسی خاتونِ اول ملی ہیں جو وائٹ ہاؤس میں آنے کے باوجود اپنی ملازمت بھی جاری رکھیں گی۔ وہ ایک بیوی کے روپ میں ایک ورکنگ لیڈی کے طور پر اپنے شوہر کے لیے مضبوطی کا باعث بنیں گی۔"