پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو 'خوارج' کہتے ہوئے ان کے خلاف 'جہاد' کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
آرمی چیف کا اپنے خطاب میں خالص اسلامی اصطلاحات استعمال کرنےپر مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد مذہبی بیانیہ تشکیل دینا ہے تاکہ اس کے ذریعے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی کیا جا سکے۔
آرمی چیف نے پیر کو پشاور میں ایک جرگے سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کو افغان سر زمین پر کالعدم تنظیموں کی پناہ گاہوں اور آزادانہ سرگرمیوں پر تحفظات ہیں۔
پاکستان کے آئین کا ذکر کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ آئین میں حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’’یہ خوارج کون سی شریعت لانا چاہتے ہیں؟‘‘
جنرل عاصم منیر نے فوجی کارروائیوں کو جہاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔‘‘
ان کے بقول پاکستان کی فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ خون کے آخری قطرے تک کرے گی اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
فوج کے سربراہ نے کہا کہ اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہےاور جنہوں نے اس دین کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ہے ان کو جواب دینا ہو گا۔
جنرل عاصم منیر نے ٹی ٹی پی کو خطاب میں خوارج قرار دیا۔ خوارج کی اصطلاح عام طور پر کسی اسلامی ریاست کی جائز حکومت کے خلاف بے جا بغاوت کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
آرمی چیف کا اس طرح کا بیان اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستانی فوجی حکام کی جانب سے'جہاد' اور اایسی دیگر اسلامی اصطلاحات کا استعمال کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
SEE ALSO: طالبان کی افغانستان سے باہر ’جہاد‘ کی مخالفت؛ کیا ٹی ٹی پی اس اعلان پر عمل کرے گی؟بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جہاد سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے بلکہ مذہبی بیانیے کو ٹی ٹی پی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے کیوں کہ اس بیانیے کی مدد سے پاکستان خاص طور پر قبائلی علاقوں میں موجود انتہا پسندوں کو کمزور کرکے کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
ماضی میں سوویت یونین سے لڑنے کے لیے پاکستان سے 'افغان جہاد' کے نام پر ہزاروں افراد افغانستان گئے تھے۔ اس وقت پاکستانی حکام جنہیں مغرب کی پشت پناہی حاصل تھی، اس جنگ کو جہاد قرار دیتے تھے۔
اسی طرح جب 11 ستمبر 2001 کے بعد امریکہ نے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع کی تو اس وقت بھی پاکستان سے بڑی تعداد میں لوگ ان افواج سے لڑنے کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔
لیکن پاکستان نے بطورِ ریاست اس سے لاتعلقی اختیار کی تھی اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں۔ اس دوران پاکستان کی فوج پر یہ الزامات بھی لگتے رہے کہ اس نے اس ضمن میں متعدد ماورائے عدالت اقدامات کیے۔
اس وقت بھی قبائلی علاقوں میں موجود مبینہ عسکریت پسند 'جہاد' کے نام پر ہی ریاستی اداروں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اس بارے میں پاکستان حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ جہاد کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی فورسز اس کے برخلاف کام کرنے والے تمام افراد کو گمراہ اور باغی قرار دیتی رہی ہے۔
ماضی میں ’پیغامِ پاکستان کانفرنس‘ اور دیگر فورمز کے ذریعے اس بارے میں حکومت کی پالیسی سامنے آچکی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کے 'بے بنیاد' الزامات مسترد کرتے ہیں: افغان طالبان'مذہبی بیانیہ قومی بیانیہ بنانے کے لیے ضروری ہے'
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کا ایک مذہبی بیک گراؤنڈ ہے۔ وہ اپنی تقاریر میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قومی بیانیہ بنانے میں، مذہبی بیانیہ اہمیت رکھتا ہے۔ان کے بقول آرمی چیف نےانہی جذبات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی فوج کے موٹو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا استعمال کیا ہے۔
فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی طرف سے لفظ ’خوارج ‘ کا استعمال کیا گیا جو ایک بہت حساس معاملہ ہے کیوں کہ مسالک پر زیادہ بحث نہیں ہونی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی طرف سے جہاد سے متعلق بیان کوئی پالیسی کی تبدیلی نہیں بلکہ ٹی ٹی پی کی طرف سے جو بیانیہ بیان کیا جاتا ہے اس کا جواب ہے۔
لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی کے بقول موجودہ حالات کے پیشِ نظر آرمی چیف نے ایسا بیان دیا ہوگا کیوں کہ ماضی میں جہاد کا جو مطلب لیا جاتا تھا اس وقت ان کی مراد وہ نہیں۔
دوسری جانب عامر رانا کا خیال ہے کہ پاکستان کی جہاد سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔
ان کے مطابق پاکستان نے ماضی میں’ پیغامِ پاکستان کانفرنس‘ اور دیگر مہمات کے ذریعے سرحدی علاقوں میں موجود مبینہ دہشت گردوں کے خلاف یہ بیانیہ پہلے ہی دے دیا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں دہشت گردی: 'افغانستان میں فوجی کارروائی آخری آپشن ہو گا'انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے اپنے بیان میں خوارج کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں سرکاری سطح پر اس طرح نہیں کہا گیا لیکن مذہبی شخصیات کی مدد سے اس طرح کا پیغام دیا جاتا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاون برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے جو کہا وہ اس سے قبل پاکستان کی مذہبی قیادت پیغامِ پاکستان کانفرنس کے ذریعے کہہ چکی ہے۔
ان کے مطابق اس کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ جنگ یا جہاد کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مخالف بھی دین کا نام لے کر ہی دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں" خوارج" کہا جاتا ہے۔
افغانستان کا بیان پاکستان کے لیے کار آمد؟
آرمی چیف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ دنوں افغانستان میں طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ نےبھی کہا تھا کہ امارت اسلامی افغانستان کسی بھی طور پر کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دے سکتی۔
بعد ازاں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کےوزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب نے ہفتے کو وزارتِ دفاع کے ایک اجلاس کے دوران ملا ہبت اللہ کے بیان کی طرح پاکستان کا نام لیے بغیر افغانستان سے باہر کسی بھی ملک میں جہاد کو ممنوع قرار دیا تھا۔
ملا یعقوب کا کہنا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر نے جہاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے فرمان کی اطاعت سب کے لیے لازم ہے۔
افغان طالبان کے امیر کے بیان پر عامر رانا کا کہنا تھا کہ ملا ہبت اللہ کا بیان افغان طالبان کے حوالے سے ہے۔ لیکن ابھی یہ بیان وضاحت طلب ہے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ بیان صرف افغان طالبان کے لیے ہے اور انہیں ہی افغانستان سے باہر بشمول پاکستان پر حملوں کے حوالے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
عامر رانا کے بقول ’’میرا اندازہ ہے کہ یہ بیان ٹی ٹی پی کے لیے نہیں تھا۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ملا ہبت اللہ کا بیان بہت اہم ہے۔ اس بیان سے ایک پالیسی واضح ہوگئی ہے کہ افغان حکومت اپنے معاملات خود ٹھیک کرنا چاہ رہی ہے۔
ان کے بقول یہ بیان پاکستان کے لیے بھی فائدہ مند ہے کیوں کہ اس سے پاکستان اپنے علاقوں میں کنٹرول بہتر بنا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔
حافظ طاہر اشرفی کے مطابق ملاہبت اللہ کا بیان بھی بہت مثبت ہے۔ آرمی چیف اور ملاہبت اللہ کے بیانات سے ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دونوں ممالک امن قائم کرنے کے لیے بہت سنجیدہ ہیں اور ان عناصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے آرمی چیف نے اسی وجہ سے کہا ہے کہ صرف افغانستان کی عبوری حکومت سے بات ہوگی اور کسی دہشت گرد گروہ سے بات نہیں ہوگی۔ یہ ایک نئی پالیسی نظر آ رہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اپنے علاقوں میں امن کیسے قائم کرنا ہے۔
'لشکر یا امن کمیٹیوں کے قیام کا کوئی امکان نہیں'
عامر رانا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی جہاد سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی قبائلی علاقوں کے لوگوں کو جہاد کے لیے ابھار کر لشکر یا کمیٹیاں بنانے کی کوئی پالیسی نظر آرہی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ایسا ماحول نہیں ہے۔
SEE ALSO: کیا امریکہ اور نیٹو کا افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ پاکستان اسمگل ہو رہا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب ایسی امن کمیٹیاں یا لشکر بنے تھے تو ان علاقوں کے لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا تھا اور آج تک طالبان کی وجہ سے ان علاقوں میں لشکر تشکیل دینے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
لیفٹننٹ جنرل(ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی افواج ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں اور ایک دوسرے سے لڑیں۔ لیکن فوج کی موجودہ قیادت اس صورتِ حال کا مکمل ادراک رکھتی ہے۔
نائن الیون کے بعد جہاد کے بارے میں تذکرہ کم ہونے اور لبرل ازم کے فروغ سے متعلق حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں افواہ پھیلائی جاتی تھی اور پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ فوج جہاد پر بات نہیں کرتی۔ لیکن موجودہ فوجی سربراہ نے ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر کیا اور اس بات پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ پاکستان فوج کی اساس ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔