کراچی دہشت گرد حملہ، انٹیلی جنس ناکامی: ماہرین

برگیڈئر (ر) محمد سعد نے خفیہ معلومات کے حوالے سے امریکی تعاون کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم ٹیکنالوجی کی سطح پر، یہ تعاون پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے

کراچی میں اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر دہشت گردوں کےحملوں میں 45 افراد کی ہلاکت کے سانحہ کو ماہرین نے سانحہ پشاور آرمی اسکول سے بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے، اسے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انٹلی جنس نظام کی ناکامی قرار دیا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں میزبان نفیسہ ہودبھائے سے بات چیت کرتے ہوئے معروف پاکستانی تجزیہ نگار برگیڈئر (ر) محمد سعد کا کہنا تھا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس دہشت گردی کی خفیہ معلومات ہوتی، تو یہ سانحہ پیش نہ آتا۔

انھوں نے خفیہ معلومات کے حوالے سے امریکی تعاون کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا اور کہا کہ کم از کم ٹیکنالوجی کی سطح پر، یہ تعاون پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

برگیڈئر (ر) محمد سعد نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسماعیلی کمیونٹی بزنس سے وابستہ ہے۔بقول اُن کے، ’اب ان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں انھیں ٹارگیٹ بنائے جانے پر یہ کمیونیٹی خوف زدہ ہوکر ملک چھوڑ کر چلی گئی تو ملک کا زبردست معاشی نقصان ہوگا‘۔

اُن کے الفاظ میں، ’سندھ میں حکومت غیر موثر ہوچکی ہے۔ لہذا، اب اس کے سواء کوئی چارہ نہیں کہ فوج کو دفعہ 147 کے تحت اختیارات دئے جائیں‘۔


تجزیہ نگار، مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی جنداللہ نامی تنظیم اس وقت غیر فعال ہے اور اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ اس بڑے پیمانے پر کارروائی کرسکے‘۔

بقول اُن کے، ’پاکستان کے لئے اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وہ افغانستان کے ساتھ تعاون بڑھائے، کیونکہ، دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر اپنے ہاں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے‘۔