حافظ سعید کی گرفتاری قومی مفاد میں کی، حکومت: بیرونی دباؤ پر پکڑا، جماعت الدعوة

حافظ سعید کو بدھ کو لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے راستے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)

وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید احمد کی گرفتاری کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستان کے اپنے مفاد میں کی گئی ہے۔ پاکستان میں کسی کو اب بندوق لے کر گھومنے اور امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

اس سے قبل کالعدم جماعت الدعوۃ نے حافظ سعید کی رہائی کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انھیں بیرونی دباؤ پر گرفتار کیا گیا ہے۔

کراچی میں امن و امان کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے ان خبروں کی تردید کی جن کے مطابق کالعدم جماعت الدعوۃ کو امریکہ سمیت دیگر ممالک کے دباؤ پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہادی تنظیمیں دنیا بھر نے مل کر بنائیں جو ہمارے ملک میں پنپ رہی تھیں لیکن اب حکومت نے ان تنظیموں کے بارے میں اپنی پالیسی مکمل طور پر تبدیل کر لی ہے۔

اعجاز شاہ کے مطابق اب پاکستان میں کسی بھی ایسی تنظیم کو برداشت نہیں کیا جائے گا جو ریاست کے اندر ریاست قائم کر لے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ جماعت الدعوۃ کے رہنماوں کو امریکہ کے کہنے پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اعجاز شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے سے قبل ہی واضح کیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک کی جنگ نہیں لڑیں گے اور انہیں کوئی دباؤ ڈال کر استعمال نہیں کر سکتا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے پر پاکستان کی سویلین حکومت اور فوج ایک ہی سوچ رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے جماعت الدعوة کے تحت چلنے والے فلاحی اور خیراتی ادارے بھی ریاستی تحویل میں لے لیے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو 17 جولائی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کئی نئے مقدمات قائم کر کیے ہیں۔ اس گرفتاری پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک ٹوئٹ کیا تھا۔

ادھر جماعت الدعوۃ کے مطابق جماعت کے سربراہ کی گرفتاری بیرونی دباو کے پیش نظر کی گئی ہے۔ ترجمان جماعت الدعوة کے مطابق حافظ سعید پر عائد کئے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور اس سے قبل بھی لاہور ہائی کورٹ ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

بھارت، حافظ سعید کو 2011 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کا مرکزی ملزم قرار دیتا ہے جس میں 170 سے زائد بھارتی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے حافظ سعید کے حملے میں ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔

بعض مبصرین اس گرفتاری کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ سے قبل اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ 2014 میں امریکہ نے جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے حافظ سعید سے متعلق معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم کا بھی اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے گزشتہ روز بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادھو فیصلے کو بھی سراہا اور کہا کہ بھارتی شہری کلبھوشن کو پاکستانی قوانین کے تحت اپنی سزا پر اپیل کا مکمل حق دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ کلبھوشن کو ملٹری کورٹ نے پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں 10 اپریل 2017 کو سزائے موت سنائی تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری پر پوچھے گئے ایک سوال پرکہا کہ ملک میں احتساب کا عمل جاری ہے اور اس کے لیے قومی احتساب بیورو مکمل خودمختار ادارہ ہے جس نے برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف کے سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا ہے اور اس میں کوئی حکومتی مداخلت نہیں۔

جماعت الدعوة کا ردعمل

ترجمان جماعت الدعوۃ احمد ندیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے مقدمات کے اندراج پر ہم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔ ان کے بقول جس روز حافظ سعید کو حراست میں لیا گیا وہ اس دوران بھی گوجرانوالہ ایک مقدمے میں پیشی کے لیے جا رہے تھے۔

سی ٹی ڈی نے بدھ کی صبح لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے حافظ سعید کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ترجمان جماعت الدعوۃ کے مطابق وہ قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے حافظ سعید کی رہائی کے لیے تمام قانونی راستے استعمال کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی ميں بھی قانون ہاتھ ميں نہیں ليا اور نہ ہی ہماری جماعت نے پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کی قانون شکنی کی ہے۔

حافظ سعید لاہور میں کارکنوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

2001 سے لے کر اب تک متعدد بار حافظ سعيد گرفتاری، نظر بندی، ضمانت اور باعزت بری ہونے کے باعث شہ سرخيوں ميں رہے ہیں۔

بھارتی پارلیمان پر 2001 میں ہونے والا حملہ ہو، 2008 کے ممبئی حملے یا پھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں، بھارت ان کا ذمہ دار حافظ سعید کو ٹھہراتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی عدالتوں میں کبھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔

ترجمان احمد ندیم کا مزید کہنا تھا کہ "ہم پر امن شہری ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بیرونی دباؤ پر حافظ سعید کو گرفتار گیا ہے۔ عدالتوں نے ہمیشہ انھیں باعزت بری کیا ہے۔ ان کے خلاف کبھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔"

ترجمان نے وضاحت کی کہ جماعت الدعوۃ پاکستان میں ریلیف کا کام کرتی ہے جس کا علم پوری قوم کو ہے۔ جب سے جماعت الدعوۃ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کی جماعت کے تمام ادارے سرکاری تحویل میں ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ انھوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس پر عدالت نے 30 جولائی کو سی ٹی ڈی سے جواب طلب کیا ہے۔

​حافظ سعيد کی گرفتاری ايک ايسے وقت عمل ميں لائی گئی ہے جب وزيرِ اعظم عمران خان چند روز بعد امریکہ جا رہے ہیں جہاں وہ 22 جولائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کریں گے۔

سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اب دنیا کے حالات بدل گئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں سرگرم تھیں۔ تاہم اب ایسے جغرافیائی حالات ہیں کہ دنیا ایسی تنظیموں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسين کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی تیز کی ہے۔ حافظ سعید کی گرفتاری بھی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں حافظ سعید کی گرفتاری کا براہِ راست تعلق عمران خان کے دورۂ امریکہ سے ہے۔

ان کے بقول ریاستِ پاکستان کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ عسکریت پسند گروہوں کے گرد اب گھیرا تنگ کرنا ہو گا۔

رفعت حسین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر پاکستان کی حکومت اور فوج کا موقف ایک ہے۔ عمران خان کی حال ہی میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جب کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا بھی پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ لہٰذا پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے مقرر کردہ اہداف حاصل کر لے۔

ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق پاکستان پر یہ بھی الزام ہے کہ مسلح کارکن کشمیر میں در اندازی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول اب پاکستان سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں در اندازی نہیں ہو رہی۔