آئی ایم ایف کی شرائط پر زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کی تجویز؛ مسائل کیا ہیں؟

  • پاکستان میں حکومت کی آمدنی بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف نے زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کی بھی شرط رکھی ہے۔
  • مختلف کسان تنظیموں کی جانب سے زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کو ملکی زراعت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے۔
  • چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے کاشت کاروں پر 15 فی صد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
  • پچیس ایکڑ سے 50 ایکڑ تک کے کسان سے 10 سے 20 ہزار جب کہ 50 ایکڑ سے زائد رقبے پر سالانہ 25 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس لینے کی تجویز ہے۔
  • حکومت کا دعویٰ ہے کہ صرف بڑے کاشت کاروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جب کہ چھوٹے کسانوں کو ریلیف دیں گے۔

لاہور -- پاکستان کے صوبہ پنجاب نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے مختلف تجاویز بھی سامنے آ رہی ہیں جب کہ کسان تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق پنجاب میں زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے بھی مختلف سلیبس متعارف کرائے گئے ہیں۔

محکمہ خزانہ پنجاب کے ایک عہدے دار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیراعلٰی پنجاب کو دی گئی بریفنگ کے مطابق چھ لاکھ روپے اور اس سے کم سالانہ آمدن والے کسان سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے کاشت کاروں پر 15 فی صد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ 12 سے 16 لاکھ سالانہ آمدن والے کسانوں سے 20 فی صد جب کہ 16 سے 32 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 30 فی صد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔

پچیس ایکڑ سے 50 ایکڑ زمین کے مالک کسان سے 10 سے 20 ہزار جب کہ 50 ایکڑ سے زائد رقبے پر سالانہ 25 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس لینے کی تجویز ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مختلف کسان تنظیموں کی جانب سے مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے آئندہ سال جنوری میں قانون سازی کی جائے گی جس کے بعد اس کی وصولی کا آغاز کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد زرعی شعبہ صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔

آئینی ماہرین کی رائے میں زرعی شعبے پر ٹیکس صوبائی حکومتیں لگا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے منظوری درکار ہو گی۔

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کہتے ہیں کہ پاکستانی کسان کو خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پہلے ہی بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ ایسے میں سبسڈی کے بجائے ٹیکس عائد کرنا ناانصافی ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاشت کار کو کسی بھی قسم کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اُسے کسی بھی فصل کا ریٹ کیا ملے گا۔

اُن کے بقول دنیا کے دیگر ممالک میں مستقبل کا ریٹ پہلے سے طے ہوتا ہے یعنی کاشت کار کو کم از کم دو سال قبل پہلے یہ پتا ہوتا ہے کہ اُس کی فلاں فصل پر کتنے اخراجات ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی شرط پر کسانوں سے ٹیکس لینے کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کسان ٹیکس دینا چاہتا ہے۔ لیکن اُس سے پہلے یہاں کے کسان کو بھی وہی مراعات دی جائیں جو دنیا بھر کے کسانوں کو ملتی ہیں۔

کاشت کاروں کا شکوہ ہے کہ پاکستان میں کسانوں کو مہنگی بجلی، مہنگی کھادیں اور مہنگے اسپرے ایک طرح سے ٹیکسوں کی ہے ایک شکل ہے۔

اُن کا کہنا تھاکہ اِسی طرح پاکستان میں زراعت کے شعبے میں تحقیق کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اِس ضمن میں تدبیر سے کام لینا ہو گا۔ اگر حکومت کسانوں پر ٹیکس کی شرح زیادہ لگاتی ہے تو اُس سے خوراک کی کمی (فوڈ سیکیورٹی) جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

جامعہ پنجاب کے شعبہ ایگریکلچر سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم حیدر سمجھتے ہیں کہ کسانوں پر ٹیکس لگانے کے بدلے میں حکومت اِس بات کو یقینی بنائے کہ بوقتِ ضرورت کسانوں کو کھادیں، بیچ اور اسپرے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر دستیاب ہوں۔

Your browser doesn’t support HTML5

’اب یہ گنجائش نہیں رہی کہ ملک میں کوئی نان فائلر رہے‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ مڈل مین اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرے۔

ذرائع وزیرِ اعلٰی ہاؤس پنجاب کے مطابق زرعی آمدن پر ٹیکس کے حوالے سے آئی ایم ایف ماہرین کے صوبائی حکومت سے ویڈیو لنک کے ذریعے مذاکرات ہو چکے ہیں۔

مذاکرات میں وفاقی وزارتِ خزانہ اور صوبائی افسران بھی شریک تھے جن میں حکومت نے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔

ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے زرعی شعبے پر ٹیکس کے حوالے سے دیگر صوبائی حکومتوں سے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم حیدر کی رائے میں 25 ایکڑ زمین کے مالک کسان پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اجناس اُگانے والا کسان کم جب کہ مڈل مین اُسی اجناس سے زیادہ پیسے کما رہا ہے۔

مسائل کیا ہیں؟

خالد کھوکھر کے مطابق ملک بھر میں کاشت کاروں کے پاس زمینوں کی ملکیت کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے۔

اُں کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں تقریباً 65 فی صد زرعی رقبے نجی شعبے میں لیز (ٹھیکہ) پر دیے جاتے ہیں اور فریقین کے پاس کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا جس سے دونوں کے درمیان ٹیکس دینے کا مسئلہ پیدا ہو گا۔

خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ اِسی طرح ملک کے تقریباً 65 فی صد کاشت کار کے پاس ملکیتی زمین ایک ایکڑ سے پانچ ایکڑ کے درمیان ہے۔ 25 فی صد کاشت کار ایسے ہیں جن کے پاس چھ ایکڑ سے لے کر 15 ایکڑ تک ملکیتی زمین ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ زمینیوں کے زرخیزی کے بھی مسائل ہیں۔ کسی کی زمین زیادہ زرخیز ہے اور کسی کی کم جس سے ٹیکس اکٹھا کرنے میں مسائل آئیں گے۔

فوڈ سیکیورٹی

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم حیدر سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت 25 ایکڑ سے کم والے کسان پر ٹیکس لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اُس سے فوڈ سیکیورٹی جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زراعت سے منسلک نظام بہت فرسودہ ہے جس کی وجہ سے کسان کی مالی حالت کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔ ملک میں کاشت کار کو بروقت اُس کی فصل کے مناسب پیسے نہیں مل رہے۔ لہذٰا ٹیکس لگنے سے وہ مزید دباؤ میں آ جائے گا۔