|
اسرائیلی افواج اور لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ نے جمعرات کے روز سرحد کے ساتھ ایک دوسرے پر فضائی حملے کئے، جو ان کے درمیان مہینوں سے جاری حملوں میں تازہ ترین تھےجن کے باعث ان خدشات نے جنم لیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ ایک وسیع تر علاقائی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔
حزب اللہ نے کہا کہ اس نے ایک حملے میں اسرائیلی اڈوں پر 200 سے زیادہ راکٹ فائر کیے جن میں "دھماکہ خیز ڈرون" کا استعمال بھی کیا گیا۔ ایرانی حمایت یافتہ گروپ نے کہا کہ وہ بدھ کو اسرائیل کی طرف سے اپنے ایک کمانڈر کی ہلاکت کے ردعمل میں کارروائی کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حزب اللہ کے حملے کے نتیجے میں پورے شمالی اسرائیل میں فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے بہت سے پروجیکٹائلز کو روکا اور لبنان میں لانچنگ کے اڈوں پر تازہ فضائی حملے کئے۔
اسرائیل نے اپنے شمالی سرحدی علاقے میں کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں دی، جہاں سے زیادہ تر لوگوں کو نکالا جا چکا ہے۔ تاہم اس نے فوری طور پر یہ کہا ہے کہ اس نے ان حملوں کا جواب جنوبی لبنان میں دے دیا ہے۔
حزب اللہ، فلسطینی عسکری گروپ حماس کا اتحادی ہے اور وہ 7 اکتوبر کو غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد سے تقریباً روزانہ ہی سرحد پار سے اسرائیل پر گولہ باری کرتا رہتا ہے جس کا اسرائیل کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے۔
سرحد پر مسلسل ہونے والی ان جھڑپوں سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بدھ کو فائرنگ کے تبادلوں میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے مشرق وسطی میں جنگ کا دائرہ بڑھنے کے خدشے سے خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم خود کو ایک مکمل جنگ کی جانب جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
حزب اللہ اور حماس، اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ایران کی زیر قیادت ایک علاقائی اتحاد ’مزاحمت کے محور‘ کا حصہ ہیں۔ اس اتحاد میں یمن کے حوثی باغی اور شام اور عراق کے مسلح گروپ بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے حزب اللہ کی جانب سے 200 سے زیادہ راکٹ فائر کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے لانچنگ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
SEE ALSO: حزب اللہ اسرائیل پر حملوں میں کمی لائے؛ امریکہ اور یورپی ممالک کی تنبیہاسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے حزب اللہ کے زیادہ تر راکٹوں کو فضا ہی میں تباہ کر یا۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں ایک شخص ہلاک اورایک زخمی ہوا۔ جب کہ بعض مقامات پر جنگلی جھاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی۔
بدھ کے روز اسرائیل کے حملے میں لبنان کے ساحلی شہر طائر میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر محمد نعمہ ناصر ہلاک ہو گئے تھے۔
حزب اللہ کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا ہے کہ نعمہ تین شعبوں میں سے ایک کے انچارج تھے۔
ناصر کی تدفین کے موقع پر حزب اللہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار ہاشم صفی الدین کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک لیڈر کی ہلاکت کے بعد دوسرا شخص پرچم تھام لیتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوط عزم کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ جھڑپوں کے بعد علاقائی جنگ کا خدشہگزشتہ سال 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے ایک بڑے اور اچانک حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ عسکریت پسند واپس جاتے ہوئے لگ بھگ 250 لوگوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ میں لے گئے تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلے میں ایک سو کے قریب یرغمال رہا کر دیے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس وقت حماس کی قید میں 116 یرغمال موجود ہیں جب کہ 42 کے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے جاری کیے گئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 38000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے ہیں جن کی اکثریت عام شہریوں کی ہے اور ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں۔
SEE ALSO: سینئیر کمانڈر کی ہلاکت کےجواب میں حزب اللہ کے اسرائیل پر راکٹ حملے،کیا تصادم پھیل سکتا ہے؟خبررساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں لبنان میں کم از کم 496 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت جنگجوؤں کی تھی جب کہ ان میں 95 عام شہری بھی شامل تھے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ان کی جانب 15 فوجی اور 11 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل پر غزہ میں جنگ بند کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے جب کہ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حماس کے خاتمے اور تمام یرغمالوں کی رہائی تک جنگ جاری رہے گی۔
مصر میں امریکہ، قطر اور مصری ثالثوں کے ذریعے اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے کسی قابل قبول معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)