|
اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے ایک روز بعد جمعے کو کہا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں ملوث حماس کے دو کمانڈروں کو ہلاک کر دیا ہے۔
اسرائیلی فورسز لبنان میں حماس کے اتحادی عسکری گروپ حزب اللہ سے بھی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور خبررساں ادارے اے ایف پی کی جمعے کی صبح کی فوٹیج میں بیروت کے جنوبی مضافات میں اسرائیلی حملے دکھائے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں حزب اللہ کا غلبہ ہے۔
لبنان کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ جمعرات کو اسرائیلی حملوں میں کم ازکم 52 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 40 ہلاکتیں لبنان کے مشرقی علاقے میں ہوئیں۔
لبنان کی حزب اللہ نے حماس کی حمایت میں اکتوبر 2023 میں اسرائیلی علاقوں پر تقریباً روزانہ ہی راکٹ فائر کرنے شروع کیے تھے۔ جس کا اسرائیلی فورسز جواب دیتی رہی ہیں۔ لبنان میں اسرائیل کی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3583 تک پہنچ چکی ہے۔
غزہ کے طبی عملے نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے بیت لاہیا اور جبالیہ پر رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
حماس اور حزب اللہ کو امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر کئی ممالک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کے گرفتاری کے وارنٹ
دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف نے جمعرات کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو غزہ کے فلسطینوں کے خلاف جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
SEE ALSO: انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے نیتن یاہو اور سابق وزیرِ دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیےغزہ میں 13 مہینوں سے جاری جنگ میں اب تک کم ازکم 44056 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں ہزاروں جنگجو بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ غزہ کا محکمہ صحت یہ نہیں بتاتا کہ ہلاک ہونے والوں میں عسکریت پسند کتنے تھے۔
اسرائیل نے غزہ میں فوجی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر اچانک اور بڑے حملے کے ردعمل میں شروع کی تھی۔ زمین، فضا اور سمندری راستوں سے ایک ساتھ کیے جانے والے حملے میں حماس کے لگ بھگ 1500 جنگجوؤں نے حصہ لیا اور ان کی کارروائیوں میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ جنگجو غزہ واپس جاتے ہوئے 250 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے، جن میں سے ایک سو کے لگ بھگ یرغمالوں کو گزشتہ سال نومبر میں مختصر جنگ بندی کے دوران سینکڑوں فلسطینیوں کی جیلوں سے رہائی کے بدلے چھوڑ دیا گیا تھا، جب کہ باقی ماندہ یرغمال اب بھی حماس کی قید میں ہیں اور ان میں سے کئی ایک ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ میں امداد اور خوراک کی شدید قلت
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے فلسطینیوں کے لیے بیرونی امداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں آنے والی خوراک اور انسانی امداد پر کوئی پابندی نہیں لگاتا، لیکن اسرائیلی فوج کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اکتوبر کے مہینے میں داخل ہونے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد 1800 تھی۔ جب کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے روزانہ تقریباً 500 امدادی ٹرک غزہ آتے تھے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امداد لے جانے والے ٹرکوں کو اسرائیلی فوج مختلف وجوہات کی بنا پر ر وک لیتی ہے۔ امداد کی کمی کی وجہ سے، غزہ کی پٹی میں، جس کی آبادی 23 لاکھ کے لگ بھگ ہے، خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ فلسطینیوں کا زیادہ تر انحصار امدادی خوراک پر ہے۔
بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی حملوں کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اسپتال اور انفرا اسٹکچر تباہ ہو چکا ہے۔ ادویات کی شدید قلت ہے اور آبادی کا زیادہ تر حصہ عارضی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر ہے اور پینے کے پانی کی قلت ہے۔ خوراک اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے بچوں کی صحت اور نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
SEE ALSO: غزہ خوراک بحران: تقریباً 100 امدادی ٹرک لوٹ لیے گئےایک فلسطینی شخص ہانی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا خاندان 21 نفوس پر مشتمل ہے اور وہ ان کے لیے آٹے کا ایک تھیلا بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔
اسرئیل لبنان کی سرحد پر بفر زون بنا رہا ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان میں ایک بفر زون بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بیروت میں قائم ایک تھنک ٹینک سیناپس(Synaps) کے بانی پیٹر ہارلنگ نے کہا ہے کہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل لبنان کی جنوبی سرحد کے ساتھ ایک بفر زون قائم کرنا چاہتا ہے۔ جس کو تقویت لبنان کی قومی خبررساں ایجنسی کی ان رپورٹوں سے ملتی ہے جن کے مطابق لبنانی حکام نے اسرائیل پر جنگلات اور زرعی علاقے جلانے کا الزام لگایا ہے۔
تل ابیب میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے اورنا میزراحی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا مقصد کچھ ایسی ضمانتیں حاصل کرنا ہے کہ حزب اللہ اب سرحد کے قریب نہیں ہے اور وہ اسرائیل کے شمالی حصے پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے پی اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)