صدر اوباما اس وقت برطانیہ کےدورے پر ہیں اور واشنگٹن میں اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کی کوششیں امریکی سفارتکاری کی ترجیح بنی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے اس بیان پر کہ اسرائیل 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس نہیں جائے گا ، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں رہنے والے ملے جلے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں ۔
بظاہر پرسکون نظر آنے والے اس علاقے پر 44 سال پہلے ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اپنا کنٹرول قائم کیا تھا ۔ جنوبی افریقہ سے آنے والے ہلری ہرزبرگز اس علاقے کے اولین آباد کاروں میں سے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یروشلم میں آباد ہونا چاہتے تھے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس علاقے میں ہمیں ایک سو سولہ مکان بنانے ہیں۔ سیاسی معاملات پر تو ہم نے زیادہ غور نہیں کیا تھا ۔
آج علاقے کے مکین ایک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ نیا شاپنگ مال بن رہا ہے ۔ پرانا یروشلم چند منٹ کے فاصلے پر ہے ۔ لیکن اس منظر کو ہلا دینے والی ایک آواز گزشتہ ہفتے واشنگٹن سے آئی ہے ۔ صدر براک اوبامانے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی ہی کی وجہ سے یہ اہم ہے کہ ہم سچ بولیں ۔ موجودہ صورت حال قابل قبول نہیں ۔ اسرائیل کو پائیدار امن کے قیام کے لئے کچھ جرات مند اقدامات کرنے ہونگے ۔
جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین سے قیام امن کےلئے کچھ مشکل سمجھوتے کر سکتا ہے ، لیکن 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس نہیں جائے گا ۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کو زیادہ رقبہ دینے کو تیار ہوگا ، لیکن اپنی قائم کردہ سرحد وں کی سختی سے پابندی کروائے گا ۔ یہ اصولی بات ہے اور اسے بھولنا نہیں چاہئے ۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ایک فلسطینی ریاست کا حجم اتنا بڑا ضرور ہونا چاہئے کہ وہ قائم رہ سکےاور خودمختار اور خوشحال ہو ۔
اسرائیلی صدر نے امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں یہ بھی دوہرایا کہ اسرائیل ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پرآنے کو تیار نہیں جسے اسرائیل کا وجود مٹانے کے خواہش مند مسلح گروپوں کی حمایت حاصل ہے ۔
راموت نام کا یہ علاقہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد آباد کیا گیا ، یعنی علاقے کی ملکیت پر فلسطینیوں کا دعوی ہے ۔ اس علاقے کے قریب اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے کے شہر بیت الاقصیٰ اور اس کے 27 ہزار شہریوں کو ایک دیوار کھینچ کے علاقے سے باہر دھکیل رکھا ہے ۔ شہر کی مقامی کونسل کے نائب سربراہ کہتے ہیں کہ اسرائیل بیت الاقصیٰ میں رہنے والوں کو دیوار کے پار ان کی اپنی زمینوں پر آنے کی اجازت نہیں دیتا۔
عمر غیاث کا کہناہے کہ ہم 1967ء کی سرحدوں پر واپس جانا نہیں چاہتے ، ہمیں چاہتے ہیں کہ ہمیں بلا رکاوٹ اپنی زمین پر جانے اور آنے کی اجازت ہو ۔
1967ء کی سرحدوں پر واپس جانے کی بات اسرائیل فلسطین امن بات چیت میں پہلے بھی زیر بحث آئی ہے لیکن تنازعے کے دونوں فریقوں کے لئے یہ انتہائی حساس معاملہ ہے ۔
اس علاقے کے مکین اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے امریکی دباؤ کے سامنے کمزور نہ پڑنے کے موقف پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ لیکن فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لئے ایک آزاد وطن میں پر سکون زندگی کی امید دوبارہ پیدا ہوئی ہے ۔