اسرائیل پر حماس کے حملے اور غزہ میں جنگ کو ایک برس مکمل

  • حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے غیر متوقع حملہ کیا تھا۔
  • حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
  • حملے کے دوران حماس نے 250 افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے لگ بھگ 100 اب بھی اس کی تحویل میں ہیں۔
  • اسرائیل نے حملے کے بعد حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔
  • غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں ایک برس کے دوران 42 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں۔
  • اسرائیل اور حزب اللہ میں بھی جھڑپیں جاری ہیں جس کے بعد یہ تنازع خطے میں پھیلنے کے خدشات موجود ہیں۔

اسرائیل پر حماس کے غیر متوقع حملے اور اس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔

پیر کو جنگ کا ایک برس مکمل ہونے کے دن اسرائیلی فوج نے غزہ کے وسط میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے جنگی طیاروں سے بمباری کی ہے۔

غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس کے ایک برس قبل اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر کیے گئے حملے کے بعد اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ میں بھی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ اس لڑائی میں اب شدت آتی جا رہی ہے جس کے بعد خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ تنازع پورے خطے میں پھیل سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیل کی فوج نے جنوبی لبنان کے ساتھ ساتھ دارالحکومت بیروت میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔

دوسری جانب لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے شمالی شہر حیفا کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حزب اللہ کے بعض راکٹ حیفا شہر کے مختلف علاقوں پر گرے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق راکٹ حملوں میں لگ بھگ 10 اسرائیلی شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی اسرائیل کے شہر حیفا میں ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل پر حملے اور جنگ کا ایک برس مکمل ہونے پر اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اتوار کو شمالی اسرائیل میں لبنان کی سرحد پر فوجی اہلکاروں سے ملاقات کے لیے دورہ کیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

جنگ کا ایک برس؛ اسرائیل اور غزہ میں کیا کچھ بدلا؟

اس موقع پر بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک برس پہلے اسرائیل کو ایک خوف ناک دھچکا لگا تھا۔

ان کے بقول اس دن کے بعد گزشتہ 12 ماہ میں اسرائیل نے سارا نقشہ بدل دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج اپنے دشمن پر جو ضرب لگا رہی ہے اس پر ساری دنیا کو حیرانی ہے۔

انہوں نے اسرائیلی فوجیوں سے کہا کہ وہ فتح حاصل کرنے والی نسل ہیں۔

علاوہ ازیں امریکہ کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پر حملے کے ایک برس مکمل ہونے پر تقریب میں شریک ہوں گے اور اس دوران موم بتیاں بھی روشن کی جائیں گی۔

حماس نے سات اکتوبر 2013 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر غیر متوقع طور پر زمین، فضا اور بحری راستے سے حملہ کیا تھا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ان میں سے نصف سے زیادہ کو نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

اب بھی لگ بھگ 100 یرغمالی حماس کی تحویل میں ہیں۔ اسرائیلی فورسز کا خیال ہے کہ حماس کی تحویل میں موجود یرغمالیوں میں سے ایک تہائی کی موت ہو چکی ہے۔

دوسری جانب سات اکتوبر 2023 کو ہی اسرائیلی فورسز نے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور اسرائیل کی حکومت نے حماس کے خاتمے اوریرغمالوں کی رہائی تک اعلانِ جنگ کیا تھا۔

ایک برس سے غزہ میں اسرائیل کی حماس کے خلاف جاری جنگ میں ساحلی پٹی کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق لگ بھگ 42 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 97 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

حماس کے ماتحت غزہ کی وزارتِ صحت کی جانب سے جاری ان اعداد و شمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہلاک ہونے والوں میں کتنے عسکریت پسند شامل تھے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں نصف سے زائد بچے اور خواتین ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

آلات اور ادویات کی کمی؛ غزہ کے ڈاکٹر زخمیوں کا علاج کیسے کر رہے ہیں؟

واضح رہے کہ غزہ کی آبادی جنگ کے آغاز سے قبل لگ بھگ 23 لاکھ تھی جس میں سے 80 فی صد سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

خیال رہے کہ غزہ کی عسکری تنظیم حماس اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین سمیت ان کے بیشتر اتحادی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)