رسائی کے لنکس

’مدعو کرنے سے قبل سوچنا چاہیے تھا‘؛ بھارت کی ذاکر نائک کے دورۂ پاکستان کی مذمت


ڈاکٹر ذاکر نائک حکومت کی دعوت پر دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے تھے. انھوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
ڈاکٹر ذاکر نائک حکومت کی دعوت پر دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے تھے. انھوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

  • بھارت کی وزارتِ خارجہ کے مطابق انھیں نہیں معلوم کہ ذاکر نائک کس پاسپورٹ پر پاکستان کا دورۂ کر رہے ہیں۔
  • بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائک کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔
  • ذاکر نائک نے بھارتی حکومت کے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی۔
  • انھوں نے ستمبر میں اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا تھا کہ یہ بل خطرناک ہے۔
  • ڈاکٹر ذاکر نائک حکومت کی دعوت پر دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے تھے۔
  • انھوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
  • بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں نے ان پر نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے انتہاپسندی پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔

نئی دہلی — بھارت نے متنازع اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کے پاکستانی دورے اور ان کے خیر مقدم پر اظہارِ مایوسی کیا ہے۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے پاکستان میں ہونے اور ان کے پُر جوش خیر مقدم کی رپورٹس دیکھی ہیں۔ یہ افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے تاہم ان کے بقول یہ حیرت انگیز نہیں ہے۔

جب رندھیر جیسوال سے جمعے کو اس بریفنگ میں ڈاکٹر ذاکر نائک کے پاسپورٹ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ وہ کس پاسپورٹ پر پاکستان کا دورۂ کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان کے فوراً بعد بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائک کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا۔

ان کے اکاؤنٹ پر وزٹ کرنے پر وہاں لکھا ہے کہ قانونی مطالبات کی وجہ سے بھارت میں ذاکر نائک کا اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ قبل ازیں ذاکر نائک نے بھارتی حکومت کے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی۔

انھوں نے ستمبر میں اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا تھا کہ یہ بل خطرناک ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو ہزاروں مساجد، مدارس، قبرستان اور لاکھوں ایکڑ زمین مسلمانوں سے چھین لی جائیں گی۔

انھوں نے بھارتی مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس کے خلاف جاری احتجاج میں حصہ لیں۔

پارلیمانی اور اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ان کے بیان کو فرضی پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو گمراہ نہ کریں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک حکومتِ پاکستان کی دعوت پر ایک ماہ کے دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے ہیں جب کہ انھوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔

ان کا 1992 کے بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے جہاں ان کے متعدد پروگرامز طے ہیں۔

افغانستان میں داعش جنگجو گرفتار، طالبان کا پاکستان پر الزام
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:31 0:00

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں عالمی سطح پر اسلام کے فروغ کے لیے قرآن کی تعلیمات کی ترویج کے سلسلے میں ان کی کوششوں کو سراہا تھا۔

ذاکر نائک مختلف الزامات میں بھارت میں مطلوب ہیں۔ وہ 2016 سے مستقل طور پر ملائیشیا میں مقیم ہیں۔

بھارت کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ان پر نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے انتہاپسندی پھیلانے کا الزام ہے۔

سیکیورٹی ایجنسیوں اور بالخصوص نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے 2016 میں ان کے خلاف کیس قائم کیے جانے کے بعد وہ ملائیشیا منتقل ہوئے۔

ان کی قانونی دشواریاں اس وقت شروع ہوئیں جب 2016 میں ڈھاکہ کے ایک کیفے میں دھماکے میں گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ ذاکر نائک کی تقریروں سے متاثر ہے۔

اس دھماکے میں متعدد غیر ملکی شہریوں سمیت 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

این آئی اے نے دہشت گردی کے انسداد کے انتہائی سخت قانون ’یو اے پی اے‘ اور تعزیراتِ ہند کی متعدد دفعات کے تحت ان کے خلاف عدالت میں فردِ جرم داخل کی ہے۔

ان کے خلاف منی لانڈرنگ قوانین کے تحت بھی کارروائی کی گئی ہے۔

اس واردات کے بعد بھارت نے ان کے ادارے ’اسلامک ریسرچ فاونڈیشن‘ (آئی آر ایف) اور ان کے ٹیلی ویژن چینل ’پیس ٹی وی‘ پر پابندی عائد کر دی تھی۔

رپورٹس کے مطابق پیس ٹی وی کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔

پیس ٹی وی کے پروگراموں میں خطاب کرنے والے مقررین کا جن کی اکثریت علما پر مشتمل تھی، کہنا ہے کہ وہ صرف قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔ لیکن سیکیورٹی ایجنسیوں کا الزام ہے کہ اس کے ذریعے مختلف مذاہب کے درمیان دشمنی کے جذبات اور انتہاپسندانہ خیالات پھیلائے جا رہے تھے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کے مطابق ملائیشیا کے سامنے ذاکر نائک کی حوالگی کی درخواست زیرِ التوا ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔

ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم جب گزشتہ سال بھارت کے دورے پر آئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ ان کے سامنے ان کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ بہت پہلے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔

ٹرمپ اور ہیرس کا اہم ترین سوئنگ اسٹیٹ مشی گن میں سخت مقابلہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

ان کے بقول وہ دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتے۔ لیکن ذاکر نائک کی حوالگی کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت بھی تو پیش کیے جانے چاہیئں۔ اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو پیش کیا جائے۔

انور ابراہیم جب رواں سال اگست میں بھارت کے دورے پر آئے تو انھوں نے کہا کہ جب تک متنازع مبلغ ان کے ملک میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتے وہ انھیں بھارت کے حوالے نہیں کریں گے۔

انھوں نے نئی دہلی کے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے ‘ کے یو ٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بھارت کی تشویش سمجھتے ہیں۔ لیکن جب تک ذاکر نائک بھارت اور ملائیشیا کے درمیان اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرتے، ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کریں گے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ذاکر نائک ملائیشیا میں کوئی گڑبڑ کرتے ہیں یا وہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ پیدا کرتے ہیں تو انھیں بھارت واپس لایا جا سکتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار وویک شکلا کے خیال میں پاکستانی حکومت کی جانب سے ذاکر نائک کو مدعو کرنا مناسب فیصلہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت سے اس کے رشتوں میں اور تلخی پیدا ہو جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ذاکر نائک کے خلاف سنگین الزامات ہیں، وہ بھارت میں مطلوب ہیں۔ وہ یہاں کے قانون کی گرفت سے بھاگے ہوئے ہیں۔ ایسے شخص کو سرکاری طور پر مدعو کرنے سے قبل پاکستان کو سوچنا چاہیے تھا۔

ذاکر نائک اکتوبر 1965 میں ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے خاندان میں بہت سے لوگ ڈاکٹر ہیں۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر تھے۔

انھوں نے ممبئی کے ایک کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ وہ ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر ہیں۔ 1980 میں ساؤتھ افریقہ کے مبلغ احمد دیدات کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد انھوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کی۔

اردو اور عربی میں تبلیغ کرنے والے بیش تر مبلغین کے برخلاف وہ انگریزی میں لیکچر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا حلقہ وسیع ہو گیا۔

انھوں نے 1991 میں ممبئی میں ’اسلامک ریسرچ فاونڈیشن‘ (آئی آر ایف) نامی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے وہیں سے پیس ٹی وی بھی شروع کیا۔

اب اسلامک ریسرچ فاونڈیشن اور پیس ٹی وی دونوں ہی پر پابندی عائد ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے سرکاری استقبال اور ان کو دعوت دیے جانے پر پاکستان میں بھی بعض طبقات سوالات اٹھائے رہے ہیں۔

ایک کتاب کے مصنف اور پاکستان کے ایک نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور ان کو سرکاری پروٹوکول دینا بھارت کو ایک پیغام دینے کے مترادف ہے کیوں کہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور انہیں بنیاد پرست، شدت پسند ہونے کے الزامات کا سامنا ہے اور انہیں ملائیشیا میں بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کی اجازت نہیں ہے۔

ان کے بقول ایسے مبلغ کو سرکاری طور پر پاکستان میں مدعو کرنا، وزیرِ اعظم سمیت اہم سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں اور انہیں عوامی اجتماعات سے خطاب کی اجازت دینے کے پیچھے ایک حکمتِ عملی نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کے فالوورز کی تعداد پاکستان میں کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان میں سرکاری مہمان کی حیثیت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی آمد سے قبل ایسے وی لاگرز کو انٹرویو دینا جو پاکستانی ہونے کے باوجود بھارت میں زیادہ مقبول ہیں، ان خیالات کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ ڈاکٹر نائیک کو بلا کر بھارت کو پیغام دیا گیا۔

فیض اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے تو پاکستان میں امام کعبہ اور امام مسجد نبوی سمیت اسلامی دنیا کے مفتیان کرام اور مفتی اعظم بھی تشریف لاتے رہے ہیں۔ ان کی اقتدا میں نماز جمعہ وغیرہ کے بڑے اجتماعات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نسبت عرب علما اور آئمہ عوامی اجتماعات سے ایسے خطاب نہیں کرپاتے کیوں کہ یہاں زبان آڑے آتی ہے۔

ادھر وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر محمود اشرفی اس خیال سے زیادہ متفق دکھائی نہیں دیتے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مدعو کرنے میں حکومت کے کوئی سفارتی یا سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے مبلغ، علما اور اسکالرز پاکستان آتے رہتے ہیں جیسے امام کعبہ، امام مسجد نبوی، مفتی اعظم فلسطین، مصری اور دیگر علما اکثر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں جب کہ مختلف مسالک کے علما بھی پاکستان آتے رہتے ہیں اور اسی طرح پاکستانی علمائے کرام دنیا کے مختلف اسلامی اور غیر مسلم ممالک کا دورہ بھی کرتے ہیں اور وہاں عوامی خطابات بھی دیتے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد میں عوام شریک ہوتی ہے۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ تین دہائیوں میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کرنے پر چہ مگوئیاں کرنا مناسب نہیں ہے۔

طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی تقاریر میں بھی کافی متوازن گفتگو کر رہے ہیں چاہے وہ بین المذاہب ہو یا بین المسالک ہم آہنگی ہو۔ خواتین کے حقوق ہوں یا مسلمانوں کو درپیش عصر حاضر میں درپیش مسائل ہوں، اس لیے ان کی تقاریر اور ان کی پاکستان میں موجودگی پر تنقید کے بجائے اس کو اصلاحی پہلو سے دیکھنا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG