مغربی کنارے کا مزید قطعہٴ زمین مختص

فائل

اس اراضی کو مختص کیے جانے کے اقدام پر فلسطینی اعلیٰ مذاکرات کار، صائب عریکات نے فوری مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ اُنھوں نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کا مطالبہ کیا

اسرائیل کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے 400 ہیکٹرز کے قطعہٴزمین کو مخصوص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ عشروں میں یہودی ریاست کی طرف سے قبضےمیں لیا جانے والا ملکیت کا یہ ممکنہ طور پر سب سے بڑا ٹکڑا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ملک کے سیاسی قائدین کے احکامات کے تحت اِس قطعہٴ زمین کو ’سرکاری ملکیت‘ میں لینے کا اعلان کیا۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام جون میں بیت اللحم کے قریبی سڑک سے اغوا کیے گئے تین اسرائیلی نوجوانوں کو قتل کیے جانے کے سلسلے میں کیا گیا ہے، جو علاقہ مغربی کنارے کے جنوب میں واقع ہے۔

اسرائیل نے اریحہ سے تعلق رکھنے والے تین فلسطینیوں کو ان ہلاکتوں میں نامزد کیا ہے جس واقعے کے بعد حماس کے شدت پسندوں کے خلاف 50 روزہ لڑائی چھڑی، جس کو غزہ کے فلسطینی کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ لڑائی تب بند ہوئی جب گذشتہ ہفتے جنگ بندی کا غیر حتمی سمجھوتا طے پایا۔ تاہم ، زمین کو مختص کیے جانے کے اقدام پر فلسطینی اعلیٰ مذاکرات کار، صائب عریکات نے فوری مذمتی بیان جاری کیا ہے۔


اُنھوں نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کا مطالبہ کیا، جو بقول اُن کے، فلسطینی لوگوں اور اُن کی زیرِ قبضہ زمین کے خلاف متعدد جرائم کیے گئے۔

اِس زمین پر، اسرائیل غیوت نام کا ایک نیا شہر بسانا چاہتا ہے۔ اس وقت اس بستی میں محض 10 خاندان آباد ہیں۔

نئی بستیوں کے مخالف گروپ کے ایک ترجمان، یاریو اوپین ہائیمر نے کہا ہے کہ اس نئی توسیع پسندی کے نتیجے میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ اسرائیل کے امن مذاکرات کے امکانات کو دھچکا لگے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو قائم کرنے کے ٹھوس حامی ہیں، جس زمین کو 1967ء کی چھ روزہ لڑائی کے دوران اسرائیل نےفتح کر لیا تھا۔


تاہم، بستیوں کو وسعت دینے کی پالیسی پر اکثر و بیشتر اسرائیل کی مذمت کی جاتی رہی ہے، جسے زیادہ تر ملک بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔

مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں 24 لاکھ فلسطینیوں نے ساتھ ساتھ تقریبا ً 550000اسرائیلی مکین ہیں۔