اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو آج دو ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور غزہ کے دوسرے بڑے شہر خان یونس میں فریقین کے درمیان گھر گھر لڑائی جاری ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی فورسز ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور بلڈوزر کی مدد سے خان یونس کے مختلف علاقوں میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جب کہ رفح سمیت دیگر علاقوں میں بھی اسرائیل کی فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔
اسرائیلی فوج نے خان یونس میں مخصوص مقامات کو نشانہ بنانے اور لگ بھگ 30 سرنگوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز سے خان یونس اور بیت الاہیہ میں شدید جنگ ہو رہی ہے اور حالیہ جھڑپوں میں اسرائیل کی لگ بھگ دو درجن عسکری گاڑیاں تباہ کی ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کے گھر کا گھیراؤ کر رہی ہیں جب کہ اسرائیلی حکومت کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ یحییٰ السنوار خان یونس میں زیرِ زمین قائم سرنگوں میں موجود ہیں۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں جنگ پھیلنے سے شمالی غزہ سے نقل مکانی کرکے آنے والے بے گھر افراد کے پاس اب پناہ کے حصول کے لیے کوئی محفوظ جگہ دستیاب نہیں۔
اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کے بعد خان یونس سمیت ملحقہ علاقوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
نقل مکانی کرنے والے بے گھر فلسطینی اب مصر کی سرحد کے ساتھ واقع علاقے رفح میں انتہائی خراب حالات اور شدید سرد موسم میں خیموں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق خان یونس کے رہائشی عمل مہدی کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور جنگ سے ذہنی طور پر شدید متاثر ہیں۔
عمل مہدی نے کہا "ہمیں کوئی ایسا چاہیے جو ہمارے لیے موجود حالات کا حل نکال سکے تاکہ ہم اس صورتِ حال سے نکل سکیں۔"
غزہ کی مجموعی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے۔ ساحل کے ساتھ واقع اس طویل پٹی نما علاقے کو دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل حماس جنگ کی وجہ سے غزہ کی لگ بھگ 19 لاکھ آبادی نقل مکانی پر مجبور ہے۔
شمالی غزہ میں واقع اس ساحلی پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی سے نقل مکانی کر کے خان یونس آنے والے خمیس الضالو نے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خان یونس میں بھی ہمیں بمباری، تباہی، یہاں سے انخلا کے لیے فضا سے پمفلٹ گرنے کا عمل، دھمکیاں اور اسرائیلی فون کالز کا سامنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں جائیں؟ ہمیں بتائیں تو صحیح کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کہاں جائیں؟ ہم نے خان یونس بھی چھوڑ دیا اور اب رفح کے خیموں میں قائم بے گھر افراد کے کیمپ میں موجود ہیں۔"
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کر کے تل ابیب حکام کے مطابق 1200 افراد کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔
حماس کے حملے کے بعد کے اسرائیل نے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور یہ محاصرہ اب بھی جاری ہے۔
دو ماہ سے جاری اس جنگ میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق 16 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
اسرائیل نے لڑائی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جنگ حماس کے مکمل خاتمے اور یرغمال افراد کی رہائی تک جاری رہے گی۔
گزشتہ ماہ قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی کے بعد فریقین نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کی تھی جس کے دوران حماس نے 100 سے زائد یرغمالوں کو رہا کیا تھا جس کے بدلے اسرائیل نے جیلوں میں قید 200 سے زائد خواتین و بچوں کو آزاد کر دیا تھا۔
حماس کی تحویل میں اب بھی 136 یرغمال افراد موجود ہیں۔ تاہم اسرائیل دو ماہ سے جاری لڑائی میں یہ سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے کہ حماس نے ان یرغمال افراد کو کہاں رکھا ہے۔ حماس کے مطابق اسرائیل کی بمباری کے سبب بعض یرغمال افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ بھی جانیے
جنگ کے بعد غزہ پر حکومت: غیریقینی صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟اسرائیل حماس عارضی جنگ بندی معاہدہ؛ یرغمال افراد کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟حماس سے سرنگوں کی لڑائی میں روبوٹس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا کچھ فری لانس فوٹو جرنلسٹوں کو اسرائیل پر حماس کے حملے کا پہلے سے علم تھا؟'جب تک امریکہ ہے، اسرائیل کو اپنے دفاع کی ضرورت نہیں پڑے گی'رفح میں بمباری
غزہ اور مصر کے سرحدی علاقے رفح میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بمباری کی اطلاعات ہیں۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ بدھ کو رفح میں ایک رہائشی علاقے پر اسرائیل کی بمباری سے 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ کئی درجن زخمی ہوئے ہیں۔
’اے ایف پی‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں موجود اس کے صحافی نے غزہ کے کویتی اسپتال میں زخمیوں کو لاتے ہوئے دیکھا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ’ کے مطابق الجزیرہ نیٹ ورک سے وابستہ ایک غزہ کے ایک صحافی کے خاندان کے لگ بھگ 22 افراد شمالی مہاجرین کیمپ جبالیہ پر بمباری میں نشانہ بنے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے بدھ کو غزہ میں لگ بھگ 250 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں اسے شمالی غزہ میں ایک طبی مرکز اور اسکول کے قریب سویلین آبادی کے درمیان اسلحے اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ ملا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ذخیرے میں میزائل، راکٹ لانچر اور ٹینک تباہ کرنے والے کئی اقسام کے گولہ بارود شامل ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں رفح سے ایک بار پھر اسرائیل پر میزائل داغے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم غزہ سے داغے جانے والے میزائلوں کو فضا میں تباہ کر دیتا ہے۔ بدھ کو کیے گئے راکٹ حملوں میں اسرائیل میں کسی قسم کے نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کی صورتِ حال بھی کشیدہ ہے۔
اسرائیلی فورسز نے بدھ کو مغربی کنارے میں دو مہاجر کیمپوں پر چھاپے مارے ہیں۔ ان چھاپوں کے دوران تین فلسطینیوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت چلنے والی نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں ایک 16 سال کا لڑکا بھی شامل ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق غزہ میں 60 روز سے جاری جنگ کے دوران مغربی کنارے میں بھی یومیہ کم از کم چار فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور دو ماہ میں مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز اور یہودی آباد کاروں کی فائرنگ اور حملوں میں اب تک 250 فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں۔
یروشلم میں یہودی بستیاں آباد کرنے کا اعلان
جنگ کی اس صورتِ حال کے دوران اسرائیل کی حکومت نے مشرقی یروشلم میں مزید یہودی بستیاں آباد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’پیس ناؤ‘ کے مطابق حکومت نے 1738 مزید گھر بنانے کی منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا اور علاقے کا اسرائیل سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ البتہ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے اس اعلان کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’عیر عمیم‘ کے مطابق مشرقی یروشلم میں لگ بھگ تین لاکھ فلسطینی اور دو لاکھ اسرائیلی آباد ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 2016 میں بھی ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کے قیام کی مذمت کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔