|
پیر کو انتقال کرنے والے ناول نگار اسماعیل کدارے نے اپنے قلم کو البانیہ میں انور خوجہ کی کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ایک خفیہ مگر گھاتک ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔
ان کے کہانی لکھنے کے انداز کو جارج اورویل اور فرانز کافکا کے اسلوب سے بھی جوڑا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں 1946 سے 1985 تک جاری رہنے والی انور خوجہ کی مطلق العنان حکومت کے جبر کو بیان کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے ایک انٹرویو میں کدارے نے کہا تھا: ’’تاریک دور اپنے ساتھ ناخوش گوار لیکن خوب صورت سرپرائز لے کر آتا ہے۔‘‘
کدارے کہا کرتے تھے: ’’ادب میں ہمیشہ تاریک ادوار ہی میں غیر معمولی کام ہوا ہے کیوں کہ یہ لوگوں پر جبر سے تھوپی گئی بد قسمتی کا مداوا تلاش کرتا ہے۔‘‘
اپنے منفرد و پر اثر طرزِ تحریر اور اپنے ملک میں تاریخ سے متعلق پائے جانے والے تصورات اور ڈکٹیٹرشپ کے خلاف حرفِ انکار بلند کرنے کی وجہ سے کدارے کو ادب کے نوبیل انعام کے لیے ایک موزوں امیدوار سمجھا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ ان کا نام بھی زیرِ گردش رہا۔
کدارے کے ناول، مضامین اور شاعری کے 40 سے زائد زبانوں میں تراجم ہوئے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ ان کا شمار جدید دور کے معروف ترین ناول نگاروں میں ہوتا تھا۔
اسماعیل کدارے نے نوے کی دہائی میں کمیونسٹ حکومت ختم ہونے سے چند ماہ قبل ہی البانیہ کی کمیونسٹ پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور پیرس فرار ہو گئے تھے۔
کیمونسٹ پارٹی سے اپنی وابستگی کے دور کو انہوں نے اپنی کتاب ’دی البانیئن اسپرنگ—دی ایناٹومی آف ٹائرنی‘ میں بیان کیا ہے۔
آمر کے خلاف بھی اور پسندیدہ بھی؟
کدارے جنوبی البانیہ کے علاقے جروکاستر میں 28 جنوری 1936 کو پیدا ہوئے تھے۔ کدارے کو بچپن ہی میں ادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور وہ شیکسپیئر کے ڈرامے ’میکبیتھ‘ سے بہت متاثر تھے۔
اس کے علاوہ وہ اطالوی شاعر دانتے اور ہسپانوی ناول نگار سروینٹس کو بھی اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔
تقدیر کی ستم ظریفی یہ تھی کہ جس ڈکٹیٹر انور خوجہ کے خلاف کدارے نے آواز بلند کی وہ بھی پہاڑوں میں بسے انہی کے قصبے جروکاستر سے تعلق رکھتے تھے۔
کدارے نے ترانہ میں لسانیات کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ماسکو کے گورکی انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ لٹریچر چلے گئے۔
سن 1960 میں کدارے البانیہ واپس آئے۔ ابتدا میں انہوں نے بطور شاعر اپنی شناخت بنائی۔ لیکن 1963 میں ان کا پہلا ناول ’دی جنرل آف دی ڈیڈ آڑمی‘ شائع ہوا تو ان کا شمار ممتاز ناول نگاروں میں ہونے لگا۔
اس ناول کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو میں بھی قربان چنا کا اس ناول کا کیا گیا ترجمہ ’مردہ لشکر کے سپہ سالار‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔
ان کا دوسرا ناول ’مونسٹر‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں ایک ایسے قصبے کی کہانی بیان کی گئی ہے جہاں رہنے والے بستی سے باہر ٹروجن ہارس کے ظاہر ہونے کے بعد مستقل اضطراب اور پریشانی کا شکار ہیں۔ اس ناول پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سن 1977 میں شائع ہونے والا کدارے کا ناول ’دی گریٹ ونٹر‘ اگرچہ کسی حد تک حکومتِ وقت کی تائید میں تھا۔ لیکن اس نے انور خوجہ کے حامیوں کو اس قدر غضب ناک کر دیا تھا کہ انہوں نے کدارے کو سزائے موت دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
البانیہ میں کئی مصنفین کو قیدوبند سے گزرنا پڑا۔ کئی کو موت کی سزا بھی ہوئی لیکن کدارے وہاں رہنے کے باوجود اس سے محفوظ رہے۔
خوجہ کی بیوہ نجمیے خوجہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے شوہر ادب کے دل دادہ تھے اور انہوں نے کئی مرتبہ کدارے کو ان کی عالمی پذیرائی کی وجہ سے حکومتی جبر سے محفوظ رکھا۔
انور خوجہ کے دور کے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ کدارے کئی مرتبہ گرفتار ہونے کے قریب تھے۔ 1975 میں ان کی ایک نظم ’سرخ پاشا‘ کی اشاعت کے بعد انہیں ایک سال سے زائد عرصے کے لیے ایک دور دراز گاؤں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تاہم کدارے اپنے ساتھ البانوی آمر کے کسی خصوصی سلوک یا رعایت ملنے کے تاثر کی نفی کرتے تھے۔
انہوں نے 2016 میں اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’انور خوجہ مجھے کس سے بچا رہے تھے؟ انور خوجہ سے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ادیب کو جھکنا نہیں چاہیے۔‘
ادب کے محققین یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ کدارے یا تو خوجہ کے پسندیدہ تھے یا انتہائی بہادر مصنف تھے جو قید اور موت کا خطرہ مول لے کر لکھتے رہے؟
فرانسیسی پبلشر فرانکوئس میسپیرو نے اپنی کتاب ’بلکان ٹرانزٹ‘ میں لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت درست ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسی حکومت میں جہاں کوئی ایک لفظ بھی مصنف کے لیے مصیبت بن سکتا ہو وہاں لکھتے رہنے کے لیے بہت جرات درکار ہوتی ہے۔
کدارے نے کہا تھا کہ ’’میری تحریر صرف ادبی ضابطوں کے علاوہ کسی قانون کی پابند نہیں۔‘‘
اپنے منفرد انداز اور جرات اظہار کی وجہ سے کدارے کو کئی عالمی اعزازات بھی ملے۔ 2005 میں انہیں مین بکر پرائز دیا گیا۔
نوبیل انعام کے لیے اپنا نام گردش میں آنے پر 2019 میں 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کدارے نے کہا تھا کہ وہ اس بات سے محظوظ ہوتے ہیں اگرچہ اس موضوع پر بات کرنے سے انہیں اچھا نہیں لگتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں منکسر مزاج نہیں ہوں، نہ انکسار کو پسند کرتا ہوں کیوں کہ مطلق العنان حکومتوں میں انکساری دراصل سرتسلیم خم کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ ادیب کو کبھی اپنا سر نہیں جھکانا چاہیے۔‘‘
اپنے پیچھے منفرد کہانیاں چھوڑنے والے اسماعیل کدارے نے 88 برس کی عمر میں البانیہ کے دارالحکومت ترانہ کے اسپتال میں پیر کو آخری سانسیں لیں۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں سے ادب میں آمریت کے خلاف لڑنے کے لیے جو روح پھونکی ہے وہ انہیں اور ان کے ادب کو زندہ رکھے گی۔
اس تحریر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔